زیست کے کچھ لمحات چند ایسے افراد میں بیتانے کا موقع ملا کہ جن کی روز مرہ کی مصروفیات تو ہمارے جیسی ہی ہیں اورہماری طرح ان کو بھی غم روزگارلاحق ہے ، بے حال کر دینے والی معاشی ضرورت کا سامنا ان کو بھی ہے مگر زمانے کے ایسے ہنگام میں یہ اللہ کے چنیدہ بندے اپنی الگ ہی مصروفیت بنائے بیٹھے ہیں اور مزے کی بات ہے اس مصروفیت اور لگاؤ کو اپنے لیے بہت ہی بابرکت تصور کرتے ہیں ، ان کا ماننا ہے کہ جب سے ہم اس مصروفیت میں لگے ہیں ہمارے اوپر نور الہیٰ کے الگ ہی رنگ نظر آتے ہیں ہمیں کمال کا اطمینان قلب ہے جو اس بے رحم اور خود غرض دنیا میں حوصلہ اورعزم دیتا ہے۔یوں زندگی کے نشیب و فراز کمزور جسموں اور ناتواں دلوں پر اثر انداز نہیں ہوتے ایک پختہ یقیین ملتا ہے جو مصائب و آلام کے خلاف صف آرا کر دیتا ہے ۔
جی ہاں یہ لوگ اللہ کی اس کتاب کے لیے اپنی مصروف ترین زندگی سے ترجیحا وقت نکال رہےہیں جس کے متعلق حبیب کبریا رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ اس کتاب کی وجہ سے بعض قوموں کو بلندی اور سرفرازی عطا کرتا ہے بعض کو ذلت و پستی کی گہرائیوں میں گرا دیتا ہے”
یوں تو ترجمہ و تفسیر کی کلاسز بہت سی جگہ پر جاری ہیں لوگ اس عظیم کتاب کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں لیکن یہ کلاس جو میری ممدوح ہے اس نے اپنی چند خصوصیات کی بنا پر کم از کم مجھے بہت متاثر کیا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس کلاس کے طالب علم جہاندیدہ او میچور ہیں جو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ہیں ، ان میں ڈاکٹرز بھی ہیں ، استاد بھی ہیں ، بزنس مین اور صنعت کار بھی ہیں اور ساتھ ساتھ نوخیز جوان بھی ہیں۔ انہوں قرآن حکیم کومع ترجمہ و تفیسر بالاستعاب پڑھتے ہوئے مکمل کیا ہے اور کلاس کا وقت بعد از نماز فجر ہے جو طلوع آفتاب تک جاری رہتا ہے ، طلاب نماز اشراق ادا کر کے گھروں کو لوٹتے ہیں۔
یوں تکمیل ترجمہ قرآن پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیاجس موقع پر فراغت حاصل کرنے والے طلاب القرآن کو بخاری کی شرح دی گئی جو بقیۃ السلف شیخ الاساتذہ حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی حفظہ اللہ و رعاہ کی شاہکار تصنیف ہے ۔
یہ کلاس صرف کلاس نہیں ہے بلکہ مختلف اذھان و افکار کے حامل افراد کا گلدستہ ہے جس کو کیا حسن خوبی اور مہارت کے ساتھ برادر مکرم شیخ عرفان الہیٰ حفظہ اللہ نے جوڑ رکھا ہے ۔ یہ کلاس کو ایک فیملی کی مانند ہے ۔ شیخ عرفان الہیٰ کی محبت اپناعیت اور خلوص کی وجہ سے سب بزرگ نوجوان اپنے ہی خاندان کی طرح ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ دوسری اہم بات جومعلوم ہوئی اور اپنی زندگی میں پہلی دفعہ دیکھا کہ مختلف مسالک کے حامل افراد ایک جگہ پر قرآن کلاس اس اپناعیت اورعقیدت سے پڑھ رہے ہیں۔ شیخ الاخ عرفان الہیٰ نے اس سلسلے میں کئی ایک ہم نصابی سرگرمیاں بھی شروع کر رکھی ہیں۔
چونکہ بیشتر افراد پختہ عمر کے حامل اور تجربہ کار ہیں اس لیے جب ان سے اس کلاس بارے تاثرات لیے گئے تو ایک بات سب نے مشترکہ طور پر کی وہ یہ تھی کہ ہماری زندگی میں اس کلاس کے بعد بہت زیادہ مثبت تبدیلی پیدا ہوئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ جب سے ترجمہ کلاس کا آغاز کیا تب سے ہماری زندگی میں ایک نورسا پیدا ہوا ہے جس کی برکت اور روحانیت سے پرکیف رہتے ہیں۔
اس تقریب کے مہمان خصوصی شیخ مکرم برادرم عبدالجبار حفظہ اللہ ورعاہ تھے جواس وقت قرآن اور اہل قرآن کے لیے ایک نعمت مترقبہ سے کم نہیں ہیں۔ شیخ الاخ سے نسبت قائم کرتے ہوئے فخراوراطمینان قلب ہوتا ہے کہ ہم ان کے کلاس فیلو ہیں۔ اللہ ان سے خیرکے مزید کام لے اور ہمیں خیر کے کاموں میں ان کی طرح ڈیڈی کیٹڈ ہونے کی توفیق دے جوہمارے جیسے طلاب خیر کے لیے یقینا ایک مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔
شیخ عبدالجبار حفظہ اللہ کی کلاس کے ساتھ بھرپور معیت سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ان کے دروس اور سوال و جواب کی نشست سے طلاب قرآن نے علمی تشنگی کو پورا کیا۔ متعدد مراحل پر مبنی طویل نشست یوں گزری کہ جیسے لمحہ بھر ہی ٹھہرے ہوں۔ اس دعا کے ساتھ یہ الفاظ سمیٹتا ہوں کہ اللہ ہمیں اپنے ان مقرب بندوں میں شامل کر لے جو اس کے دین کے چنے گئے ہوں اور اس دین کی خیرو برکات سے ہماری دنیا کی مشکلات اور مصائب آسان ہو جائیں ہماری زندگی کا ہم و حزن حصول دنیا کی بجائے اس کی خوشنودی اور اطاعت ہو، وفقنا اللہ لذالک۔
تحریر: الیاس حامد