امام ابن القیم رحمہ اللہ نے ایک جامع نوٹ لکھا، جس میں نیکیوں اور غلطیوں کا موازنہ کر کے بتایا کہ علماء کرام سے ہوجانے والی، چوک، غلطی، برائی اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ اس سے صرفِ نظر اور درگزر کیا جائے۔۔۔ چنانچہ مفتاح دار السعادہ(176،177/1) میں فرمایا:
شرعی قواعد اور حکمت کا تقاضا ہے کہ جس کی حسنات زیادہ اور بڑی ہیں، اور اسلام میں اچھی خاصی تاثیر رکھتا ہے، اس سے وہ کچھ برداشت کیا جائے جو دوسرے سے نہیں کیا جاتا ، اور اس کے ایسے معاملات سے بھی درگزر کیا جائے، جن معاملات میں کوئی اور ہو تو درگزر نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ معصیت اصل میں خباثت ہے، اور پانی جب دو قلے ہو جائے تو نجاست کو قبول نہیں کرتا،[سنن أبي داود(63)] بخلاف اس پانی کے جو کم ہے، کیوں کہ وہ ذرا سی پلیدی بھی نہیں اٹھا سکتا،
اسی قبیل سے رسول اللہ ﷺ کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمانا ہے : ((وما يدريك لعل الله أن يكون قد اطلع على أهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم)) تمہیں نہیں معلوم، شاید کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف توجہ کر کے فرمایا ہو: تم جو چاہے کرو، میں تمہیں معاف کر چکا ہوں. [صحيح البخاري(3007)]۔۔۔ یہ فرمانِ عالی شان ہی مانع تھا، کہ آپ ﷺ نے اپنی اور مومنین کی جاسوسی کرنے والے کو چھوڑ دیا، حالانکہ انہوں نے ایک بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا، تب بھی آپ ﷺ نے بتایا کہ بدر کے غازیوں میں سے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ان کی غلطی سزا کا ہی تقاضا کرتی تھی، لیکن سزا نافذ اس لیے نہیں کی گئی کہ بدر جیسے بڑے موقع پر وہ موجود تھے، چنانچہ اتنی بڑی غلطی کے باوجود مغفور قرار پائے، کیوں کہ ساتھ میں اس سے بڑھ کر نیکیاں بھی تھیں، ۔۔۔
اسی طرح جب نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی، تو سیدنا عثمان رضی اللہ نے ایک خطیر رقم صدقے میں ادا کی، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عثمان کو کوئی نقصان نہیں، اگر آج کے بعد کوئی عمل نہ بھی کرے۔[سنن الترمذي(3701)]۔۔
اسی طرح سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ جب احد کے دن نیچے بیٹھ گئے اور آپ ان پر پاؤں رکھ کر چٹان پر چڑھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: طلحہ نے واجب کر لی، (یعنی جنت)[سنن الترمذي(3738)]
موسی کلیم اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھیے: انہوں نے وہ تختیاں جن پر کلام اللہ درج تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے لکھ کر دی تھیں، وہ زمین پر پٹخ دیں، چنانچہ وہ ٹوٹ گئیں،[الأعراف(150)] ملک الموت کے آنکھ پھوڑ دی،[صحيح البخاري(1339)] اسراء کی رات اپنے رب سے نبی کریم ﷺ کی بابت شکوہ کرنے لگے، کہ ایک نوجوان جو میرے بہت بعد میں مبعوث ہوا، اس کی امت میری امت سے بہت زیادہ تعداد میں جنت میں جائے گی؟[صحيح البخاري(3887)] ہاروں علیہ السلام کی داڑھی پکڑي اور انہیں کھینچتے رہے، حالانکہ وہ نبی تھے، [طه(94)]
اس سب کے باوجود ان کی شان میں کوئی کمی نہیں آئی، رب کریم ان کا اکرام بھی کرتے ہیں اور ان سے پیار بھی کرتے ہیں، کیوں کہ جو ذمہ داری موسیٰ علیہ السلام نے اٹھائی تھی، جس دشمن سے انہوں نے مقابلہ کیا، جس صبر کی وادی سے وہ گزرے، اللہ کے رستے میں جو اذیتیں انہیں آئیں، ان سب کے مقابلے میں ان کے یہ امور کچھ اثر انداز نہیں ہوتے، ان کی شان و منزلت اللہ کے سامنے بالکل کم نہیں ہوئی۔
یہ اصول فطرتِ انسانی کا تقاضا ہے کہ جس کی ہزاروں نیکیاں ہوں اس کی ایک یا دو غلطیاں کچھ معنی نہیں رکھتیں، کبھی کبھار تو سزا کے دواعی اور شکر بر احسان کے اسباب کا موازنہ ہوتا ہے، شکر کے متقاضی امور سزا پر غالب آجاتے ہیں: جیسے شاعر نے کہا تھا:
وإذا الحبيب أتى بذنب واحد
جاءت محاسنه بألف شفيع
یعنی جب محبوب ایک غلطی لے کر آتا ہے تو اس کی خوبیاں ہزار سفارشی بھی تو لے آتی ہیں۔۔۔
اسی طرح شاعر کا کہنا ہے:
فإن يكن الفعل الذي ساء واحدا
فأفعاله اللاتي سررن كثيرا
یعنی اگر اس کا برا فعل ایک ہے، تو خوش کرنے والے کام بہت زیادہ بھی تو ہیں۔۔۔۔
یاد رکھیے: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندے کی نیکیاں اور برائیاں دونوں کو تولے گا، جس کا وزن زیادہ نکلا، اسی کے اثرات مرتب ہوں گے، چنانچہ اہل حسنات جن کی نیکیاں زیادہ ہوں گی، انہوں نے اللہ کی محبت، اس کی رضاؤں کو ترجیح دی ہوگی، ان کے ان معاملات کی وجہ سے معافی اور درگزر کے اسباب غالب آجائیں گے، ایسے معاملات دوسروں کے ساتھ نہیں ہوں گے۔
منقول من قواعد فی التعامل مع العلماء(ص: 137)
ترجمانی و تخریج: ابو احمد فرحان الہی