سوال

میرا نام عبداللہ ہے  میری عمر 65 سال کے قریب ہے مجھے ایک آنکھ سے بالکل دیکھائی نہیں دیتا جبکہ دوسری آنکھ میں بھی نور نہ  ہونے کے برابر ہے۔ بغیر مدد کے سفر چلنا پھرنا اور کام کرنا مشکل ہے ۔میری فیملی میں میری بیگم ،2بیٹے اور ایک بیٹی ہے ۔

میرا ذریعہ آمدن کوئی نہیں ہے کچھ رقم جو کہ بیوی کو وارثت میں ملی اس سے اخراجات کو چلایا جاتا ہے ۔ جس گھر میں رہتا ہوں وہ کرایہ کا مکان ہےجس کی  2 منزلیں ہیں   جس میں نیچے میں رہتا ہوں اور اوپر والے پورشن میں میرابڑا  بیٹا  رہتا ہے جس کی عمر 30 سال ہے اور شادی شدہ ہے اور ان کا ایک بچہ بھی ہے۔اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہے ۔ شادی کے بعد سے اوپر والے پورشن میں الگ رہتا ہے جبکہ میں ہی (والد) ہی گھر کا کرایہ،بجلی گیس پانی بلز اور خواراک کے اخراجات کرتے ہیں ۔بیٹا اس میں کوئی مدد نہیں کرتا ہے ۔

بہو کی اپنی ساس کے ساتھ دو تین ماہ بعد کچھ جھگڑا ہوتا ہے معمولی نوعیت کا ۔اس صورت حال میں بڑا بیٹا الگ مکان میں رہائش کا بندوبست کرنا چاہتا ہے ۔ جبکہ والد کے لیے اس کی مدد انتہائی ضروری ہے اور والدہ بھی بیمار رہتی ہیں۔

والد نے یہ حل پیش کیا ہے اوپر والے مکان کو الگ دروازہ نکال دیتے ہیں تاکہ نیچے والے مکان سے اس کا تعلق ختم ہو جائے اور اوپر والا الگ مکان بن جائے ۔ جس میں 2کمرے ،کچن ،واش روم ، صحن وغیرہ سب کچھ اعلی معیار  کا ہے ۔تاکہ وہ آزادی سے اوپر رہ سکیں اور اپنا تمام تر معاملات خود دیکھ سکیں اور نیچے سے  ان کا تعلق ختم ہو جائے ۔ اور یہ رہائش بھی لاہور کی ایک اعلی اور اچھی سوسائٹی میں ہے ۔

بیٹا دین دار ہے نماز کا پابند ہے لیکن اپنے والد کے اس فیصلہ جس کی تائید تمام دوست اور رشتہ دار بھی کر رہے ہیں، نہیں مان رہا ہے وہ بضد ہے کہ اس نے الگ مکان کرایہ پر لینا ہےاس نے اشارہ بھی کیا ہے اپنے والد سے کہ اس کے پاس استطاعت بھی نہیں ہے اور یہ کام وہ مجبوری کی بنا پر کررہا ہے تا کہ گھر کے حالات اچھے ہو سکیں اور  وہ قرض حاصل کرکے یہ کام کرنا چاہتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ الگ مکان بیوی کا بنیادی حق ہے۔ مزید اسکا یہ کہنا ہے کہ شرعی لحاظ سے جب بیوی سسر اور ساس کے ساتھ نہ رہنا چاہیے اگر چہ اس کو الگ پورشن ہی کیوں نہ دیا جائے تو اس کو الگ مکان دینا اس کا حق ہے۔

بحیثیت والد میں آپ سے فتوی طلب کرنا چاہتا ہوں کہ ان تمام تر تفصیلات کی روشنی میں میرے بیٹے کا میری تجویز اور فیصلے کے خلاف جانا درست ہے؟ شریعت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

والدين کے ساتھ حسن سلوک، ان کی خدمت کرنا اور ان کی اطاعت کرنا یہ فرض ہے، ارشادِ باری تعالی ہے:

“وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا”. [البقرة: 83]

’ہم نے نبی اسرائیل سے یہ پختہ وعدہ لیا تھا کہ تم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرو گے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو گے‘۔

“وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا”. [النساء: 36]

’اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو‘۔

اسی طرح فرمایا:

“وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا * وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا”. [الإسراء: 23، 24]

’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم ﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ تک نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔ اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور یہ دعا کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے شفقت سے پالا پوسا تھا‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

“رِضَا الرَّبِّ فِي رِضَا الْوَالِدَيْنِ وَسَخَطُهُ فِي سَخَطِهِمَا”. [شعب الإيمان للبيهقي:7447، الصحيحة للألباني:516]

’اللہ کی خوشنودی والدین کی خوشی میں ہے اور اس کی ناراضی والدین کی ناراضی میں ہے‘۔

ان اور اس طرح دیگر کئی آیات و احادیث میں والدین کے حق کو اللہ کے حق کے ساتھ ملا کر بیان کیا گیا ہے، یعنی جس طرح عبادت کی اہمیت ہے، اسی طرح والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری ضروری ہے۔

لہذا بیٹے کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ والدین کی خدمت، اطاعت گزاری اور ان کے حقوق کی ادائیگی سے روگردانی کرے۔ ہاں البتہ چونکہ اس پر اپنی بیوی بچوں کی دیکھ بھال بھی فرض اور ضروری ہے، لہذا کوئی ایسی صورت نکالنی چاہیے کہ والدین اور بیوی بچے دونوں اطراف راضی خوشی رہیں اور اس کے لیے بہتر تو یہی ہے کہ وہ ایک ہی گھر  کے مختلف پورشنز میں گزر بسر کریں، جیسا کہ اوپر سوال میں ذکر ہوا ہے اور والدین کی بھی یہ خواہش ہے۔

بالخصوص بیٹے اور اس کی بیوی کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ آج جو صورت حال ان کے والدین کی ہے، کل کو یہی کیفیت ان کی اپنی بھی ہوسکتی ہے، عین ممکن ہے کل کو جب یہ اپنے بچوں کی شادیاں کریں، تو ان کی خواہش ہو کہ ہمارے بیٹے اور بہویں ہمارے ساتھ رہیں، لیکن وہ بچے  سمجھیں کہ الگ رہنا ہمارا حق ہے!!  جو بھی فیصلہ کرنا ہے، ان سب امور کو سامنے رکھ کر کیا جائے۔

پھر بھی اگر ایسا ممکن نہ  ہو کہ بہو اپنے ساس سسر کے ساتھ رہے تو  اس بیٹے کا یہ فرض ہے کہ محنت کرکے والدین کے حقوق بھی ادا کرے اور بیوی بچوں کی ضروریات کا بھی خیال کرے۔ اور والدین اور بیوی بچوں ہر دو فریقین کو یہ بات سمجھا دے کہ میں کسی ایک کی وجہ سے دوسرے کے حقوق میں کوتاہی نہیں کرسکتا کیونکہ شریعت اس چیز کی اجازت نہیں دیتی، تاکہ والدین بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ بنیں اور بیوی بھی خاوند سے کوئی ایسا ناجائز مطالبہ نہ کرے، جس سے بیٹا والدین کے حق میں کوتاہی کا شکار ہو۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ