1۔ کسی بھی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار صرف اللہ ربّ العزت کو ہے، قران مجید کا ایک بڑا حصہ اس اختیار میں شرک کرنے کے رد پر مبنی ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی اور کو تحلیل وتحریم کا اختیار دینا اس ذات کو اللہ کا شریک ٹھہرانے کی مانند ہے۔
2۔ عبادات میں اصل (By default ruling) حرمت ہے،صرف وہ کام کیا جا سکتا ہے جس کو کرنے کی شرع نے اجازت دی ہو۔
3۔ معاملات، ملبوسات، ماکولات ومشروبات وغیرہ میں اصل، اباحت ہے، ہر ہر چیز حلال ہے، صرف اس چیز سے رکنا مطلوب ہے جس کو شریعت نے حرام قرار دیا ہو۔
4۔ اسلام کسی بھی علاقے قوم برادری قبیلے کے رسم ورواج کو جڑ سے اکھاڑنے یا مطلقاً حرام قرار دینے نہیں آیا۔ اگر کسی رسم یا رواج میں کوئی چیز شرعاً حرام تھی تو اس کو منع کر دیا، کسی عادت میں کوئی پہلو قابل اصلاح تھا تو اس کی اصلاح کر دی ورنہ اس علاقائی عادت یا رسم ورواج کو اسی حالت پر برقرار رہنے دیا۔
5۔ کفار کی مشابہت سے شریعت نے منع کیا ہے، اس کا درست مفہوم سمجھنا ضروری ہے، ہر علاقائی تہوار یا رسم ورواج کو، ہر پہناوے کو کفار کی مشابہت قرار دیتے چلے جانا یہ اس ممانعت کے درست مفہوم کو سمجھنے سے عاری ہونے کا نتیجہ ہے۔
6۔ افراط کبھی بھی تفریط کا اور تفریط کبھی بھی افراط کا علاج نہیں ہوتا، اگر شادی بیاہ پر فضول خرچی، اختلاط، بے پردگی اور موسیقی وغیرہ جیسی شریعت کی خلاف ورزیاں کرنا قابل مذمت ہے تو دوسری جانب بعض دین سے زیادہ دین داری کے شکار لوگوں کی جانب سے “بارات کا کھانا حرام ہے، منگنی کرنا کفار کی مشابہت ہے، لڑکی کا باپ خود لڑکی کو سسرال چھوڑ کر آئے گا” جیسی چیزوں کو شریعت باور کروانا بھی یکساں قابل مذمت ہے۔ دین کو اس کی اصل حالت پر برقرار رہنے دینا مطلوب ہے جو کہ فطرت انسانی سے بالکل مطابقت رکھتی ہے!

 سید عبداللہ طارق