محترمہ جویریہ سعید صاحبہ کی بہت خوبصورت باتیں
ایک عورت ہے جس پر اس کا شوہر مسلسل جسمانی اور ذہنی تشدد کرتا ہے۔ اسے ہر وقت جتاتا ہے کہ وہ بری ہے، خراب ہے، بات بے بات اس پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔ بچے بھی سہمے رہتے ہیں، کیونکہ اس کا غصہ شدید ہے۔ خود وہ باہر سے اچھا کھانا کھا کر آتا ہے۔ گھر والوں کو کھلانے پلانے پہنانے اور ان کی ضرورتیں پورا کرنے میں بخیل ہے۔
بیوی اور بچے ڈرے سہمے رہتے ہیں۔ اس کے سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن کچھ پتہ نہیں کہ کب کس بات پر غصہ بھڑک اٹھے اور وہ دھنک کر رکھ دے۔ بیوی کے چہرے اور جسم پر جابجا نیل پڑے ہیں۔ بچے کا بازو ٹوٹا ہے۔ ایک بچے کی گروتھ متاثر ہے۔ بیمار ہوجائے تو اسپتال نہیں لے جاتا۔ مگر یہ شخص خود باڈی بلڈر ہے۔
یہ تعلیم یافتہ بھی ہے اور خوش لباس بھی۔ اس کی نوکری بھی اچھی ہے اور اسٹیٹس بھی۔ لوگ عزت نہ بھی کریں مگر اس کے سامنے کچھ بولنے سے گریز کرتے ہیں۔ کسی کا مفاد ہے کوئی اس کے عتاب سے ڈرتا ہے۔
آپ اس شخص کو کیا کہیں گے؟
اس سے بڑھ کر یہ بتائیے کہ اس کے ساتھ کیا کیا جانا چاہیے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دور سے نظر آتا ہے کہ اس گھر میں آئے دن ہنگامہ رہتا ہے پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک روز علم ہوتا ہے کہ گھر میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اس شخص نے گھسیٹ کر بیوی کو باہر پھینک دیا۔ اس کو ٹھڈے مارے۔ گھر میں توڑ پھوڑ کی۔ اور مزید بدترین نتائج کی دھمکیاں دیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ محلے والے اور محلے والیاں فرماتی ہیں کہ یہ سب بیوی کی غلطی ہے۔ جب پتہ ہے کہ اس کا غصہ برا ہے تو ایسا کیا کیوں کہ اسے غصہ آئے۔ اور وہ تشدد کرے۔
آپ اس نفسیات اور اس اپروچ کو کیا کہیں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔
اچھا !!!
مگر کچھ لوگ اسرائیل فلسطین تنازعے میں فلسطینی مزاحمت پر ایسی ہی باتیں چھانٹتے ہیں۔
ہم اور آپ وہاں نہ رہتے ہیں اور نہ ہمیں اس درد و اذیت کا کوئی حصہ پہنچا ہے جس سے دنیا کی اس سب سے بڑی کھلی جیل کے قیدی گزرتے ہیں۔
یہ انٹر جنریشنل ٹراما ہے، ظلم اور بدمعاشی کی دہائیوں پر مبنی داستان ہے۔ ایک طرف بے پناہ طاقت اور فاشزم اور غاصبانہ قبضہ ہے جس کی پشت پر ساری دنیا کی اقوام کھڑی ہیں کچھ بدمعاشی میں کچھ مصلحت کی بنا پر۔ اور دوسری طرف نہتے مزاحمت کار اور حریت پسند ہیں جن کے لیے صرف آواز اٹھانے والے ہم جیسے عام لوگ ہیں جو دنیا کے مختلف خطوں میں بکھرے ہیں جن کے پاس اختیار و اقتدار کی طاقت نہیں۔
جب کوئی جھڑپ، یا تنازع ہوتا ہے۔۔
تو ہم میں سے کچھ لوگ قاضی بن کر فیصلہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ فلسطینیوں کو اسرائیل کو بھڑکانا نہیں چاہیے تھا۔
جس دوران وہ نہیں بھڑکا رہے تھے، اس وقت آپ کیا کررہے تھے؟
آپ نہ بڑی بات کریں نہ جذباتی ہوں۔ مگر کم از کم اتنا کریں کہ جب ظالم ظلم کرے تو ظالم کے ظلم کی داستان کہیے اور اس کے ہاتھ پکڑوانے کا مطالبہ کریں۔
یہ کم سے کم مفید کام ہے جو آپ اور میں کرسکتے ہیں۔
دنیا میں اس کو حق کی آواز اور حق کا ساتھ دینا کہتے ہیں۔
جو یہ قاضی کرتے ہیں اس کو وکٹم بلیمنگ کہتے ہیں۔
آپ ہزاروں میل دور بیٹھے وہاں کے حالات، اس کرب کو جھیلنے والوں کی کیفیت اور ان کے فیصلوں کی ڈائنامکس کو سمجھ نہیں سکتے۔
سیاہ فام، ایب اوریجنل افراد، ایشیائی رنگ دار باشندے
ان سفید فام نسل پرست اور نسل کش گوروں کے خلاف جب بھی کھڑے ہوئے، وہ کبھی ان کی طاقت کے برابر نہ تھے۔
یہ ہاکی کا میچ نہیں ہے کہ ہم کسی کے جیتنے ہارنے کے امکانات کی وجہ سے اپنے تجزیے دیا کریں۔
یہ ایک خطے پر مسلط ظالم اور طاقتور بدمعاش کے صدی کے برابر تسلط اور جبر کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس میں پسنے والے مظلوم اپنے حالات کو دیکھ کر اپنی مقدور بھر مزاحمت کررہے ہیں۔ شاید دنیا کا ضمیر جاگے۔
کیا یہ کوئی راکٹ سائنس ہے یا کوانٹم فزکس ہے یا متوازی کائناتوں کا کوئی پیچیدہ مسئلہ ہے کہ سمجھانا پڑے گا؟
سامنے کی سیدھی بات ہے۔ آج تو ساری دنیا میں مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا غلغلہ ہے چاہے وہ کتنا کمزور ہو۔ مگر ہم میں سے کچھ لوگ اور ہی سمت میں نکل جاتے ہیں۔
خاموش ظلم سہنے والی بہو یا یتیم کی حمایت کو سماج میں سے کون کھڑا ہوتا ہے جو اسرائیل کا جبر خاموشی سے سہنے والے فلسطینیوں کے حق میں کھڑا ہوگا۔
اگر ان کے خاموش ہونے کا انتظار ہے تو اس خاموشی کو دوبارہ آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ پھر دیکھیں گے کہ اس وقت کون ان کے حق کے لیے نکلتا ہے۔
کم از کم ابھی تو وکٹم بلیمنگ سے گریز کریں۔
اچھا نہیں بول سکتے تو برا بھی نہ بولیں۔
ڈاکٹر رضوان اسد