جس قدر ضروری یہ ہے کہ امت میں اصلاح کا عمل فعّال ہو اسی قدر یہ بھی ضروری ہے کہ اس عملِ اصلاح کی جہت اور سمت بھی درست ہو اور مصلح اس قدر تفقه فی الدین ضرور رکھتا ہو کہ
اوّلا تو شریعت کے مطلوب امور کو جانتا ہو اور پھر ان مطلوب امور میں بھی چیزوں کے weightage کے فرق کو پہچانتا ہو کہ کس مطلوب کو اولیت اور فوقیت حاصل ہے، کس چیز کو کس کی بنیاد پر ترک کیا جا سکتا ہے، کون سی چیزیں مرکزیت اور اساسی حیثیت کی حامل ہیں اور کون سی چیزیں باوجود اس کے کہ مطلوب اور اہم ہیں۔ نتیجے اور ثمرے کی حیثیت رکھتی ہیں یا ثانوی درجے کی ہیں۔ پھر شریعت کی منہیات میں بھی اسی فرق مراتب اور چیزوں کی درست حیثیت کو پہچانتا اور ہر چیز کو اس کے درست مقام پر رکھ سکتا ہو۔ اس صلاحیت کے بغیر کی جانے والا اصلاحی عمل بذات خود اصلاح طلب ہے۔
مثال کے طور پر صرف مظہر اور ملبس کی اصلاح کی ایسی تحریک جس میں افکار و نظریات کی درستی کو توجہ اور قلوب و اذہان کی تطہیر کو مطلوب اہمیت نہ دی جاۓ تو اس کے نتیجے میں ایسے افراد تیار ہوں گے کہ جن کی ظاہری وضع قطع اگرچہ قابل اعتراض نہ ہو گی لیکن ان کے خیالات اور افکار زہر آلود ہوں گے۔ “اسلامک اور حجابی” فیمن ازم اس کی ایک مثال ہے۔ یہ سمجھنا کہ معاشرے میں کل ملا کر ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ موسیقی سننا ،حرام تعلقات اور بے پردگی ترک کر دیں اور نماز پڑھنا اور داڑھی رکھنا شروع کر دیں، یہ ایک انتہائی سطحی نظر اور سرسری فہم کی عکاس سوچ ہے، ایسا سوچنے والا شخص مرض کی حقیقت اور پیچیدگی سے ہی آگاہ نہیں ہے کجا یہ کہ درست علاج کی صلاحیت بھی رکھتا ہو ، بلکہ شاید ایسا مصلح انجانے میں اصلاح کے بجاۓ مزید فساد کا سبب بن جائے۔

سید عبداللہ طارق