عورت کی حکمرانی

عورت کی حکمرانی چاہے کسی بھی طرز کی ہو جہاں اسے حکومت سنبھال کر معاملاتِ مملکت کلی طور پر یا جزوی طور پر چلانے کا اختیار ہو، نظام جمہوری ہو یا غیر جمہوری ہر صورت میں حاکم، گورنر، وزیر یا قاضی وجج وغيرہ بننا حرام، ناجائز، غیر درست اور قرآن و حدیث میں بیان کردہ عورت کی حدود و قیود کی واضح خلاف ورزی ہے ۔
یہ مسئلہ کوئی اختلافی مسائل میں سے بھی نہیں ہے، بلکہ امت مسلمہ کے تمام علماء بالاتفاق اسے ناجائز عمل کہتے ہیں ۔
⇚ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (٤٥٦هـ) فرماتے ہیں :

«واتفقوا أن الإمامة لا تجوز لامرأة»

’’علماء کا اتفاق ہے کہ عورت کی حکمرانی جائز نہیں۔‘‘ (مراتب الإجماع، صـ ١٢٦)
⇚نیز فرماتے ہیں :

«وجميع فرق أهل القبلة ليس منهم أحد يجيز إمامة امرأة»

’’اہلِ قبلہ کے تمام فرقوں میں سے کوئی بھی عورت کی حکمرانی کو جائز قرار نہیں دیتا۔‘‘ (الفصل في الملل والأهواء والنحل : ٤/ ٨٩)
⇚علامہ أبو بكر ابن العربى رحمہ اللہ (٥٤٣هـ) فرماتے ہیں :
«روي في الصحيح عن النبي ﷺ قال حين بلغه أن كسرى لما مات ولى قومه بنته :«لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة»، وهذا نص في أن المرأة لا تكون خليفة، ولا خلاف فيه».
’’صحيح بخاری میں مروی ہے کہ کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر پہنچی کہ کسری کی موت کے بعد اُس کی قوم نے اُس کی بیٹی کو حکمران بنا لیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’جس قوم نے اپنا معاملہ عورت کے سپرد کر دیا وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گی۔‘‘ یہ حدیث نص ہے کہ عورت خلیفہ نہیں بن سکتی اور اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ۔‘‘ (أحكام القرآن : ٣/ ٤٨٢)
⇚علامہ بغوی رحمہ اللہ (٥١٠هـ) فرماتے ہیں :

«اتفقوا على أن المرأة لا تصلح أن تكون إماما».

’’علماء کا اتفاق ہے کہ عورت حکمرانی کے لیے درست نہیں ہے۔‘‘ (شرح السنة : ١٠/ ٧٧)
⇚علامہ الآمدى رحمہ اللہ (٦٣١ هـ) حکمران کی متفق علیہ شروط کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
«السادس: أن يكون ذكرا».
’’چھٹی شرط یہ ہے کہ وہ مَرد ہو۔‘‘ (أبكار الأفكار في أصول الدين:٥/ ١٩١)
⇚علامہ قرطبی (٦٧١هـ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

«أجمعوا على أن المرأة لا يجوز أن تكون إماما»

’’علماء کا اجماع ہے کہ عورت کے لیے حکمران بننا جائز نہیں۔‘‘ (الجامع لأحكام القرآن : ١/ ٢٧٠)
⇚یہی اجماع علامہ وشتانی مالکی (٨٢٧هـ)، علامہ ایجی (٨٥٦هـ)، علامہ احمد بن یحیی المرتضی (٨٤٠هـ)، شیخ محمد امین شنقیطی(١٣٩٣هـ) رحمہم اللہ نے بھی نقل کیا ہے۔ (إكمال إكمال المعلم للوشتاني: ٥/ ١٥٩، المواقف للإيجي: ٣/ ٥٨٥، البحر الزخار للمرتضى : ٦/ ٣٨٢، أضواء البيان للشنقيطي : ١/ ٢٦)
⇚مذاہبِ اربعہ کے فقہاء کا بھی اسی پر اتفاق ہے۔ (غمز عيون البصائر: ٤/ ١١١، الدر المختار شرح تنوير الأبصار : ١/ ٥٤٨، بريقة محمودية: ١/ ٢١٦، حاشية الطحطاوي على الدر المختار: ١/ ٢٣٨، حاشية ابن عابدين: ١/ ٥٤٨، أحكام القرآن لابن العربي: ٣/ ٤٨٢، الجامع لأحكام القرآن للقرطبي : ١/ ٢٧٠، الفواكه الدواني: ١/ ٣٢٥، منح الجليل شرح مختصر خليل: ٨/ ٢٦٣، غياث الأمم، صـ ٦٥، وروضة الطالبين : ١٠/ ٤٢، أسنى المطالب : ٤/ ١٠٨، مغني المحتاج : ٤/ ١٣٠، الإنصاف للمرداوي: ١٠/ ٢٣٤، الإقناع للحجاوي: ٤/ ٢٩٢، كشاف القناع : ٦/ ١٥٩، وانظر موسوعة الإجماع)
✿۔ اس اجماع پر قرآن وسنت کے کئی ایک دلائل ہیں :
اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿اَلرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ﴾

’’مرد عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے۔‘‘ (سورة النساء : ٣٤)
⇚علامہ قرطبی رحمہ اللہ (٦٧١هـ) فرماتے ہیں :
’’کیوں کہ مَردوں میں سے ہی حکمران اور اُمراء ہوتے ہیں اور انہی میں سے مجاہدین ہوتے ہیں جبکہ عورتوں میں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ (الجامع لأحكام القرآن : ٥/ ١٦٨)
⇚حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٧٥هـ) فرماتے ہیں :
’’آدمی عورت پر نگران ہے یعنی اس پر حاکم و رئیس ہے اور جب وہ ٹیڑھی ہو جائے تو اس کی تادیب کرنے والا بڑا ہے… چونکہ مَرد عورتوں سے افضل و بہتر ہیں، اسی لیے نبوت اور بادشاہت مردوں کے ساتھ خاص ہے،… اسی طرح منصبِ قضاء بھی مَردوں کے لیے خاص ہے۔‘‘ (تفسير ابن كثير : ٢/ ٢٩٣)
✿سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

«لَمَّا بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَهْلَ فَارِسَ قَدْ مَلَّكُوا عَلَيْهِمْ بِنْتَ كِسْرَى قَالَ لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً».

’’جب نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ اہلِ فارس نے کسریٰ کی لڑکی کو وارثِ تخت وتاج بنایا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنا حکمران کسی عورت کو بنایا ہو ۔‘‘ (صحیح بخاری : ٤٤٢٥)
⇚حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٩٧هـ) فرماتے ہیں :
’’یہ حدیث دلیل ہے کہ عورت نہ تو حاکم بن سکتی ہے، نہ قاضی اور نہ ہی عقدِ نکاح میں ولی بن سکتی ہے۔‘‘ (كشف المشكل من حديث الصحيحين : ١/ ٣٢٥)

✿۔ اللہ تعالی نے اَزواجِ مطہرات کو مخاطب کر کے فرمایا:

﴿وَقَرۡنَ فِی بُیُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ ٱلۡجَـٰهِلِیَّةِ ٱلۡأُولَىٰ﴾

’’اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو۔‘‘ [الأحزاب ٣٣]
اس آیت کریمہ میں عورتوں کو گھر میں ٹھہرنے کا حکم دیا گیا ہے اور مخاطب اگرچہ نبی کریم ﷺ کی بیویوں کو کیا گیا ہے لیکن دیگر عورتوں بھی اس میں داخل ہیں کیونکہ دیگر عورتوں کی خصوصیت کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس کے علاوہ بھی شریعت عورتوں کے گھروں میں ٹھہرنے اور صرف بوقتِ ضرورت ہی باہر نکلنے کے حکم سے بھری پڑی ہے۔ (الجامع لأحكام القرآن للقرطبي)
یہ واضح دلیل ہے کہ عورت کا دائرہ کار گھر کی چار دیواری ہے اور وہ کسی بھی نظام میں حکمران یا گورنر و نگران نہیں بن سکتی کیونکہ اس کے لیے گھر سے باہر رہنا اور لوگوں سے میل ملاقات ناگزیر ہوتا ہے، لہذا جب اُمور حکمرانی سنبھالنے کے لیے مرد موجود ہوں تو عورت کا جان بوجھ کر حکومت کی ذمہ داری اٹھانا اور اس کی اڑ میں گھر سے باہر نکلنا بالکل ناجائز اور غیر درست ہے۔
⇚مولانا صلاح الدين یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یعنی ٹک کر رہو اور بغیر ضروری حاجت کے گھر سے باہر نہ نکلو۔ اس میں وضاحت کردی گئی ہے کہ عورت کا دائرہ عمل امور سیاست وجہاں بانی نہیں، معاشی جھمیلے بھی نہیں، بلکہ گھر کی چاردیواری کے اندر رہ کر امور خانہ داری سرانجام دینا ہے۔‘‘ (احسن البیان)
⇚مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’اب سوال یہ ہے کہ عورتوں کی وہ ضروریات کیا ہوسکتی ہیں جن کی بنا پر وہ گھر سے نکل سکتی ہیں؟ وہ یہ ہیں : فریضہ حج کی ادائیگی، نماز کے لئے مسجد یا عید گاہ میں جانا، اپنے اقارب سے ملاقات اور ان کی تقاریب مثلاً نکاح اور شادی میں شمولیت یا مثلاً عیادت مریض اور تعزیت موتی کے لئے جانا۔ ان میں کچھ حاجات تو سفر کی نوعیت رکھتی ہیں اور بعض پر سفر کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔‘‘ (تیسیر القرآن)
⇚اس کے بعد کچھ احادیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
’’اب دیکھئے مندرجہ بالا احادیث کی صراحت کے بعد مسلمان عورتوں کے لئے ان باتوں کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ وہ کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں۔ بیرون خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دوڑتی پھریں۔ سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ کالجوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم ہو۔ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمات انجام دیں اور ہوائی جہازوں اور ریل کاروں میں مسافر نوازی کے لئے استعمال کی جائیں۔ یا گاہکوں میں کشش پیدا کرنے کی خاطر انھیں سیلزمین کے طور پر استعمال کیا جائے؟‘‘ (تیسیر القرآن)
⇚امام مجاہد رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

«كَانَتِ الْمَرْأَةُ تَتَمَشَّى بَيْنَ الرِّجَالِ فَذَلِكَ تَبَرُّجُ الْجَاهِلِيَّةِ».

’’عورت مَردوں کے درمیان چلا کرتی تھی اور یہی جاہلیت کی زینت وبناؤ سنگھار ہے۔‘‘ (تفسير عبد الرزاق : ٢٣٤٠ وسنده صحیح)
معلوم ہوا کہ عورت کا مَردوں کے درمیان چلنا اور اُن کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا دعویٰ زمانہء جاہلیت کی خرابیوں میں سے ہے جو کسی بھی عورت کے حکمران بننے اور بالخصوص جمہوری نظام میں صاحبِ منصب بننے کے لوازمات میں سے ہے۔
✿سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«إِنَّ الْمَرْأَةَ عَوْرَةٌ، فَإِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ، وَأَقْرَبُ مَا تَكُونُ مِنْ وَجْهِ رَبِّهَا وَهِيَ فِي قَعْرِ بَيْتِهَا»

’’عورت پردہ ہے، جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس پر متوجہ ہوتا ہے اور وہ اپنے رب کے چہرے کے سب سے قریب تب ہوتی ہے جب گھر کے اندرونی حصے میں ہوتی ہے۔‘‘ (صحیح ابن خزيمة : ١٦٨٥ ورجاله ثقات)
⇚اسی طرح یہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول بھی ہے :

«الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ وَأَقْرَبُ مَا تَكُونُ مِنْ رَبِّهَا، إِذَا كَانَتْ فِي قَعْرِ بَيْتِهَا، فَإِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ»

’’عورت پردہ ہے اور اپنے رب کے سب سے قریب تب ہوتی ہے جب گھر کے اندرونی حصے میں ہوتی ہے لیکن جب باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف تانک جھانک کرتا ہے۔‘‘ (مصنف ابن أبي شيبة : ٧٦١٦ وسنده صحیح)
یہ حدیث بھی عورت کے گھر سے نکل کر سیاسی اور سوشل سرگرمیوں میں شمولیت کی ممانعت پر واضح دلیل ہے۔
✿۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ».

’’عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا کوئی نہیں دیکھا۔‘‘ (صحیح بخاري : ٣٠٤)
⇚علامہ ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ (٦٥٦هـ) فرماتے ہیں :
’’عورت کی عقل کا ناقص ہونا اس کا معاملات میں تثبیت و تحقیق اور اِن میں غایتِ کمال تک پہنچنے کی صلاحیت مراد ہے اور وہ اِس چیز میں مَردوں کے برعکس ہوتی ہیں۔‘‘ (المفهم : ١/ ٢٦٩)

عورت کی حکمرانی چاہے کسی بھی طرز کی ہو جہاں اسے حکومت سنبھال کر معاملاتِ مملکت کلی طور پر یا جزوی طور پر چلانے کا اختیار ہو، نظام جمہوری ہو یا غیر جمہوری ہر صورت میں حاکم، گورنر، وزیر یا قاضی وجج وغيرہ بننا حرام، ناجائز، غیر درست اور قرآن و حدیث میں بیان کردہ عورت کی حدود و قیود کی واضح خلاف ورزی ہے ۔
یہ مسئلہ کوئی اختلافی مسائل میں سے بھی نہیں ہے، بلکہ امت مسلمہ کے تمام علماء بالاتفاق اسے ناجائز عمل کہتے ہیں ۔
⇚ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (٤٥٦هـ) فرماتے ہیں :

«واتفقوا أن الإمامة لا تجوز لامرأة»

’’علماء کا اتفاق ہے کہ عورت کی حکمرانی جائز نہیں۔‘‘ (مراتب الإجماع، صـ ١٢٦)
⇚نیز فرماتے ہیں :

«وجميع فرق أهل القبلة ليس منهم أحد يجيز إمامة امرأة»

’’اہلِ قبلہ کے تمام فرقوں میں سے کوئی بھی عورت کی حکمرانی کو جائز قرار نہیں دیتا۔‘‘ (الفصل في الملل والأهواء والنحل : ٤/ ٨٩)
⇚علامہ أبو بكر ابن العربى رحمہ اللہ (٥٤٣هـ) فرماتے ہیں :

«روي في الصحيح عن النبي ﷺ قال حين بلغه أن كسرى لما مات ولى قومه بنته :«لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة»، وهذا نص في أن المرأة لا تكون خليفة، ولا خلاف فيه».

’’صحيح بخاری میں مروی ہے کہ کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر پہنچی کہ کسری کی موت کے بعد اُس کی قوم نے اُس کی بیٹی کو حکمران بنا لیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’جس قوم نے اپنا معاملہ عورت کے سپرد کر دیا وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گی۔‘‘ یہ حدیث نص ہے کہ عورت خلیفہ نہیں بن سکتی اور اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ۔‘‘ (أحكام القرآن : ٣/ ٤٨٢)
⇚علامہ بغوی رحمہ اللہ (٥١٠هـ) فرماتے ہیں :

«اتفقوا على أن المرأة لا تصلح أن تكون إماما».

’’علماء کا اتفاق ہے کہ عورت حکمرانی کے لیے درست نہیں ہے۔‘‘ (شرح السنة : ١٠/ ٧٧)
⇚علامہ الآمدى رحمہ اللہ (٦٣١ هـ) حکمران کی متفق علیہ شروط کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
«السادس: أن يكون ذكرا».
’’چھٹی شرط یہ ہے کہ وہ مَرد ہو۔‘‘ (أبكار الأفكار في أصول الدين:٥/ ١٩١)
⇚علامہ قرطبی (٦٧١هـ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«أجمعوا على أن المرأة لا يجوز أن تكون إماما»
’’علماء کا اجماع ہے کہ عورت کے لیے حکمران بننا جائز نہیں۔‘‘ (الجامع لأحكام القرآن : ١/ ٢٧٠)
⇚یہی اجماع علامہ وشتانی مالکی (٨٢٧هـ)، علامہ ایجی (٨٥٦هـ)، علامہ احمد بن یحیی المرتضی (٨٤٠هـ)، شیخ محمد امین شنقیطی(١٣٩٣هـ) رحمہم اللہ نے بھی نقل کیا ہے۔ (إكمال إكمال المعلم للوشتاني: ٥/ ١٥٩، المواقف للإيجي: ٣/ ٥٨٥، البحر الزخار للمرتضى : ٦/ ٣٨٢، أضواء البيان للشنقيطي : ١/ ٢٦)
⇚مذاہبِ اربعہ کے فقہاء کا بھی اسی پر اتفاق ہے۔ (غمز عيون البصائر: ٤/ ١١١، الدر المختار شرح تنوير الأبصار : ١/ ٥٤٨، بريقة محمودية: ١/ ٢١٦، حاشية الطحطاوي على الدر المختار: ١/ ٢٣٨، حاشية ابن عابدين: ١/ ٥٤٨، أحكام القرآن لابن العربي: ٣/ ٤٨٢، الجامع لأحكام القرآن للقرطبي : ١/ ٢٧٠، الفواكه الدواني: ١/ ٣٢٥، منح الجليل شرح مختصر خليل: ٨/ ٢٦٣، غياث الأمم، صـ ٦٥، وروضة الطالبين : ١٠/ ٤٢، أسنى المطالب : ٤/ ١٠٨، مغني المحتاج : ٤/ ١٣٠، الإنصاف للمرداوي: ١٠/ ٢٣٤، الإقناع للحجاوي: ٤/ ٢٩٢، كشاف القناع : ٦/ ١٥٩، وانظر موسوعة الإجماع)
✿۔ اس اجماع پر قرآن وسنت کے کئی ایک دلائل ہیں :
اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿اَلرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ﴾

’’مرد عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے۔‘‘ (سورة النساء : ٣٤)
⇚علامہ قرطبی رحمہ اللہ (٦٧١هـ) فرماتے ہیں :
’’کیوں کہ مَردوں میں سے ہی حکمران اور اُمراء ہوتے ہیں اور انہی میں سے مجاہدین ہوتے ہیں جبکہ عورتوں میں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ (الجامع لأحكام القرآن : ٥/ ١٦٨)
⇚حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٧٥هـ) فرماتے ہیں :
’’آدمی عورت پر نگران ہے یعنی اس پر حاکم و رئیس ہے اور جب وہ ٹیڑھی ہو جائے تو اس کی تادیب کرنے والا بڑا ہے… چونکہ مَرد عورتوں سے افضل و بہتر ہیں، اسی لیے نبوت اور بادشاہت مردوں کے ساتھ خاص ہے،… اسی طرح منصبِ قضاء بھی مَردوں کے لیے خاص ہے۔‘‘ (تفسير ابن كثير : ٢/ ٢٩٣)
✿سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

«لَمَّا بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَهْلَ فَارِسَ قَدْ مَلَّكُوا عَلَيْهِمْ بِنْتَ كِسْرَى قَالَ لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً».

’’جب نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ اہلِ فارس نے کسریٰ کی لڑکی کو وارثِ تخت وتاج بنایا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنا حکمران کسی عورت کو بنایا ہو ۔‘‘ (صحیح بخاری : ٤٤٢٥)
⇚حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٩٧هـ) فرماتے ہیں :
’’یہ حدیث دلیل ہے کہ عورت نہ تو حاکم بن سکتی ہے، نہ قاضی اور نہ ہی عقدِ نکاح میں ولی بن سکتی ہے۔‘‘ (كشف المشكل من حديث الصحيحين : ١/ ٣٢٥)

✿۔ اللہ تعالی نے اَزواجِ مطہرات کو مخاطب کر کے فرمایا:

﴿وَقَرۡنَ فِی بُیُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ ٱلۡجَـٰهِلِیَّةِ ٱلۡأُولَىٰ﴾

’’اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو۔‘‘ [الأحزاب ٣٣]
اس آیت کریمہ میں عورتوں کو گھر میں ٹھہرنے کا حکم دیا گیا ہے اور مخاطب اگرچہ نبی کریم ﷺ کی بیویوں کو کیا گیا ہے لیکن دیگر عورتوں بھی اس میں داخل ہیں کیونکہ دیگر عورتوں کی خصوصیت کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس کے علاوہ بھی شریعت عورتوں کے گھروں میں ٹھہرنے اور صرف بوقتِ ضرورت ہی باہر نکلنے کے حکم سے بھری پڑی ہے۔ (الجامع لأحكام القرآن للقرطبي)
یہ واضح دلیل ہے کہ عورت کا دائرہ کار گھر کی چار دیواری ہے اور وہ کسی بھی نظام میں حکمران یا گورنر و نگران نہیں بن سکتی کیونکہ اس کے لیے گھر سے باہر رہنا اور لوگوں سے میل ملاقات ناگزیر ہوتا ہے، لہذا جب اُمور حکمرانی سنبھالنے کے لیے مرد موجود ہوں تو عورت کا جان بوجھ کر حکومت کی ذمہ داری اٹھانا اور اس کی اڑ میں گھر سے باہر نکلنا بالکل ناجائز اور غیر درست ہے۔
⇚مولانا صلاح الدين یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یعنی ٹک کر رہو اور بغیر ضروری حاجت کے گھر سے باہر نہ نکلو۔ اس میں وضاحت کردی گئی ہے کہ عورت کا دائرہ عمل امور سیاست وجہاں بانی نہیں، معاشی جھمیلے بھی نہیں، بلکہ گھر کی چاردیواری کے اندر رہ کر امور خانہ داری سرانجام دینا ہے۔‘‘ (احسن البیان)
⇚مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’اب سوال یہ ہے کہ عورتوں کی وہ ضروریات کیا ہوسکتی ہیں جن کی بنا پر وہ گھر سے نکل سکتی ہیں؟ وہ یہ ہیں : فریضہ حج کی ادائیگی، نماز کے لئے مسجد یا عید گاہ میں جانا، اپنے اقارب سے ملاقات اور ان کی تقاریب مثلاً نکاح اور شادی میں شمولیت یا مثلاً عیادت مریض اور تعزیت موتی کے لئے جانا۔ ان میں کچھ حاجات تو سفر کی نوعیت رکھتی ہیں اور بعض پر سفر کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔‘‘ (تیسیر القرآن)
⇚اس کے بعد کچھ احادیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
’’اب دیکھئے مندرجہ بالا احادیث کی صراحت کے بعد مسلمان عورتوں کے لئے ان باتوں کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ وہ کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں۔ بیرون خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دوڑتی پھریں۔ سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ کالجوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم ہو۔ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمات انجام دیں اور ہوائی جہازوں اور ریل کاروں میں مسافر نوازی کے لئے استعمال کی جائیں۔ یا گاہکوں میں کشش پیدا کرنے کی خاطر انھیں سیلزمین کے طور پر استعمال کیا جائے؟‘‘ (تیسیر القرآن)
⇚امام مجاہد رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

«كَانَتِ الْمَرْأَةُ تَتَمَشَّى بَيْنَ الرِّجَالِ فَذَلِكَ تَبَرُّجُ الْجَاهِلِيَّةِ».

’’عورت مَردوں کے درمیان چلا کرتی تھی اور یہی جاہلیت کی زینت وبناؤ سنگھار ہے۔‘‘ (تفسير عبد الرزاق : ٢٣٤٠ وسنده صحیح)
معلوم ہوا کہ عورت کا مَردوں کے درمیان چلنا اور اُن کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا دعویٰ زمانہء جاہلیت کی خرابیوں میں سے ہے جو کسی بھی عورت کے حکمران بننے اور بالخصوص جمہوری نظام میں صاحبِ منصب بننے کے لوازمات میں سے ہے۔
✿سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«إِنَّ الْمَرْأَةَ عَوْرَةٌ، فَإِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ، وَأَقْرَبُ مَا تَكُونُ مِنْ وَجْهِ رَبِّهَا وَهِيَ فِي قَعْرِ بَيْتِهَا»

’’عورت پردہ ہے، جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس پر متوجہ ہوتا ہے اور وہ اپنے رب کے چہرے کے سب سے قریب تب ہوتی ہے جب گھر کے اندرونی حصے میں ہوتی ہے۔‘‘ (صحیح ابن خزيمة : ١٦٨٥ ورجاله ثقات)
⇚اسی طرح یہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول بھی ہے :

«الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ وَأَقْرَبُ مَا تَكُونُ مِنْ رَبِّهَا، إِذَا كَانَتْ فِي قَعْرِ بَيْتِهَا، فَإِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ»

’’عورت پردہ ہے اور اپنے رب کے سب سے قریب تب ہوتی ہے جب گھر کے اندرونی حصے میں ہوتی ہے لیکن جب باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف تانک جھانک کرتا ہے۔‘‘ (مصنف ابن أبي شيبة : ٧٦١٦ وسنده صحیح)
یہ حدیث بھی عورت کے گھر سے نکل کر سیاسی اور سوشل سرگرمیوں میں شمولیت کی ممانعت پر واضح دلیل ہے۔
✿۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ».

’’عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا کوئی نہیں دیکھا۔‘‘ (صحیح بخاري : ٣٠٤)
⇚علامہ ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ (٦٥٦هـ) فرماتے ہیں :
’’عورت کی عقل کا ناقص ہونا اس کا معاملات میں تثبیت و تحقیق اور اِن میں غایتِ کمال تک پہنچنے کی صلاحیت مراد ہے اور وہ اِس چیز میں مَردوں کے برعکس ہوتی ہیں۔‘‘ (المفهم : ١/ ٢٦٩)

✿۔ مولانا عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ کسی ملک کے وزیر کے ایک بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اب ہم نے دیکھنا ہے کہ ایک خاتون کو ملک یا جماعت کا سربراہ بنانے کی اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہے یا نہیں ؟ اور ہر کوئی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتون کو سربراہ بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء میں فرمایا :

﴿اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ﴾ الخ

مرد عورتوں پر قوام وحاکم ہیں اور صحیح بخاری [کتاب المغازی ۔ باب کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم إلی کسری وقیصر] میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے

:﴿لَنْ یُّفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْ أَمْرَہُمْ اِمْرَأَۃً﴾

جن لوگوں نے اپنے امر کا والی کسی عورت کو بنا لیا وہ لوگ ہر گز فلاح وبہبود سے ہمکنار نہیں ہوں گے تو ان نصوص صریحہ کے ہوتے ہوئے وزیر موصوف یا کسی اور کا کہنا ’’کسی مسلمان ملک کی خاتون سربراہ بننے میں اسلام پابندی عائد نہیں کرتا‘‘ شدید قسم کی خطا ہے۔۔۔رہا عوام کی رائے کے احترام والا معاملہ تو اس سلسلہ میں معلوم ہونا چاہیے کہ بے نظیر کی سربراہی عوام کی رائے نہیں یہ تو اس مروجہ جمہوریت کا کرشمہ ہے جس جمہوریت کے ذریعہ اقلیت کو اکثریت پر مسلط کیا جاتا ہے چند منٹ کے لیے ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہ عوام کی رائے ہے مگر یہ رائے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے برعکس جا رہی ہے اب وزیر موصوف یا ان کا کوئی اور ہمنوا مسلمان ہونے کے ناطے سے بتائے احترام اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا کیا جائے یا پھر ان عوام کی رائے کا کیا جائے جن عوام کو وزیر موصوف ایسے لوگ کالانعام گردانتے ہیں ؟ پھر پاکستانی قوم کو عوام کی رائے کا احترام کرانے کا سبق اپنے ملک میں بھی تو عوام کی رائے کا احترام کرنا چاہیے جب کہ ان کا اپنا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے ملک کے اندر یا باہر تو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا احترام کرتے ہیں اور نہ ہی عوام کی رائے کا

﴿أَتَامُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ﴾

صرف عورت کی سربراہی والا مسئلہ ہی نہیں جتنے بھی امور ملک کے اندر یا باہر کتاب وسنت اور اسلام کے منافی چل رہے ہیں ہم ان سب کو غلط سمجھتے ہیں اور مقدور بھر ان کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اگر ہم کسی وجہ سے ان کی اصلاح نہیں کر سکتے تو اس کا یہ معنی نہیں کہ ان کے جواز پر مہر تصدیق وتائید ثبت کر دی جائے یا انہیں برضا ورغبت برداشت کر لینے کا سبق دینا شروع کر دیا جائے جو حلقے اس ڈگر پر چل رہے ہیں دراصل وہ بھی اسلامی نظام کے نفاذ میں ایک قسم کی رکاوٹ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح معنوں میں کتاب وسنت پر چلنے والے مومن بنائے اور پوری دنیا میں اسلام کا علم بلند کرنے کی توفیق عطا فرمادے ۔ آمین یا رب العالمین۔ (احکام ومسائل :١/ ٤٦١)
✿۔ مولانا صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عورت کی سربراہی کے خلاف قرآن کریم کی یہ نص قطعی بالکل واضح ہے،جس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث میں ہوتی ہے۔ جس میں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ہے ”وہ قوم ہر گز فلاح یاب نہیں ہوگی جس نے اپنے امور ایک عورت کے سپرد کر دیئے“۔ (احسن البیان، تفسیر سورہ النساء : ٣٤)
اسی طرح فرماتے ہیں :
آج کل کہا جاتا ہے کہ عورتیں بھی ہر معاملے میں مردوں کے برابر ہیں۔ اگر مرد حکمران ہو سکتاہے تو عورت کیوں نہیں ہوسکتی؟ حالانکہ یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ بعض لوگ ملکہ سبا (بلقیس) کے اس ذکر سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت کی سربراہی جائز ہے۔ حالانکہ قرآن نے ایک واقعے کے طور پر اس کا ذکر کیا ہے ، اس سے اس کے جواز یا عدم جواز کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ عورت کی سربراہی کے عدم جواز پر قرآن وحدیث میں واضح دلائل موجود ہیں۔ (تفسير احسن البیان، سورہ النمل : ٢٣)
✿۔ شیخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’شریعت نے گھر کے بندوبست اور انتظام کے لیے مرد کو گھر کا قوام (نگران، ذمہ دار) قرار دیا ہے اور عورت کو اس کے ماتحت رکھا ہے۔ قرآن نے اس کی دو وجہیں بیان کی ہیں، ایک تو یہ کہ مرد کو طبعی طور پر امتیاز حاصل ہے کہ وہ منتظم بنے اور دوسرے یہ کہ گھر کے سارے اخراجات بیوی کے نفقہ سمیت مرد کے ذمے ہیں۔ اس بنا پر گھر کا نگران بننے کا حق مرد کو ہے عورت کو نہیں۔ یہی حال حکومتی امور کا ہے کہ مسلمانوں کا خلیفہ یا امیر عورت نہیں ہو سکتی۔‘‘ (تفسیر القرآن الکریم ، تفسیر سورة النساء : ٣٤)

(حافظ محمد طاهر)

یہ بھی پڑھیں: اس دن تیرے رب کی طرف روانگی ہے