اس دن تیرے رب کی طرف روانگی ہے

﴿كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ،وَقِيلَ مَنْ ۜ رَاقٍ، وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ، وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ،إِلَىٰ رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ﴾.

’’ہرگز نہیں، (وہ وقت یاد کرو) جب (جان) ہنسلیوں تک پہنچ جائے گی، اور کہا جائے گا کون ہے دم کرنے والا؟ اور وہ یقین کرلے گا کہ یقیناً یہ جدائی ہے، اور پنڈلی، پنڈلی کے ساتھ لپٹ جائے گی، اس دن تیرے رب ہی کی طرف روانگی ہے۔‘‘ (سورة القیامة : ٣٠، ترجمہ شیخ بھٹوی رحمہ اللہ)
1۔ ’’وہ وقت یاد کرو جب جان ہنسلی تک پہنچ جائے گی۔‘‘
یہاں موت اور سکرات کی کیفیت کا بیان ہو رہا ہے کہ جب ہماری روح حلق تک پہنچ جاتی ہے تو اس کے بعد کیا ہوتا ہے ۔
«کَلَّا» کو اگر یہاں ڈانٹ کے معنی میں لیا جائے تو یہ معنی ہوں گے: ’’اے ابن آدم ! تو جو میری خبروں کو جھٹلاتا ہے یہ درست نہیں بلکہ ان کے مقدمات اور آغاز کی چیزیں تو تم روزمرہ کھلم کھلا دیکھتے ہو۔‘‘ اور اگر اس لفظ کو «حقا» کے معنی میں لیں تو مطلب اور زیادہ ظاہر ہے یعنی یہ بات یقینی ہے کہ جب تیری روح تیرے جسم سے نکلنے لگے گی اور تیری ہنسلی تک پہنچ جائے۔ (تفسیر ابن کثیر)
2۔ ’’اور کہا جائے گا کون ہے دم کرنے والا؟‘‘
اس کے تین معانی مراد لیے گئے ہیں:
اولا : جب میت کے لواحقین اس کے علاج سے تنگ آجاتے ہیں تو پھر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کوئی دم کرنے والا ہے؟ یعنی ’’راق‘‘ کو «رُقْيَةٌ» بمعنی دم جھاڑ سے مشتق قرار دیا جائے۔
چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ قریب المرگ شخص کا حال بیان کرکے اپنے بندوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ جب اس کی روح حلق تک پہنچ جائے گی۔ اس وقت نہایت شدید درد ہوگا اور انسان ہر وہ سبب اور وسیلہ تلاش کرے گا جس کے بارے میں وہ سمجھتا ہوگا کہ اس سے شفا اور راحت حاصل ہوگی۔ اس لیے فرمایا: کہا جائے گا کہ کون ہے جو اس پر جھاڑ پھونک کرےَ ؟ کیونکہ دنیا کے ظاہری اسباب سے پر ان کی امیدیں منقطع ہو کر اسباب الٰہیہ پر لگ گئی ہیں مگر جب قضا وقدر کا فیصلہ آجاتا ہے تو اس کو کوئی نہیں روک سکتا۔ (تفسیر سعدی)
ثانياً : فرشتے ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ اس شخص کی روح کو جنت کے فرشتے لے کر اوپر چڑھیں گے یا دوزخ کے؟ یعنی ’’رَاقٍ‘‘ کو ’’رَقیٰ‘‘ بمعنی اوپر چڑھنے سے مشتق قرار دیا جائے۔
ثالثاً : یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ اردگرد کے لوگ کہتے ہیں : ہے کوئی بہترین و شافی طبیب جو علاج کر سکے؟ جیسا کہ شعر ہے :

هَلْ لِلْفَتى مِن بَناتِ الدَّهْرِ مِن واقِي…أمْ هَلْ لَهُ مِن حِمامِ المَوْتِ مِن راقِي (تفسير الماوردي)

3۔ ’’اور وہ یقین کرلے گا کہ یقیناً یہ وقتِ جدائی ہے۔‘‘
یعنی تمہیں یقین ہوجائے گا کہ اب تم اپنے اہل و عیال اور خویش و اقارب کو چھوڑ کر دنیا سے کوچ کر جاؤ گے۔
4۔ ’’اور پنڈلی، پنڈلی کے ساتھ لپٹ جائے گی۔‘‘
اس کے کئی معانی ہیں :
اولا : ظاہری معنی مراد ہے کہ مرنے والے کی بے قراری اور شدتِ درد سے پاؤں پر پاؤں کا چڑھ جاتا ہے۔ پہلے تو ان پیروں پر چلتا پھرتا تھا اب ان میں جان کہاں؟ سب سے پہلے پاؤں کی طرف سے جان نکلنا شروع ہوتی ہے۔ جب پنڈلیوں سے جان نکل جاتی ہے تو انسان میں یہ سکت نہیں رہتی کہ وہ ایک پنڈلی کو دوسری سے اٹھا کر الگ کرسکے۔
ثانياً : بوقت وفات پنڈلیاں سوکھ کر ایک دوسرے سے لپٹ گئیں، یہاں تک کہ ٹانگوں کو کوئی دوسرا آدمی سیدھا نہ کرے تو سمٹی ہوئی ہی رہ جائیں ۔ (تفسیر القرآن از بھٹوی)
ثالثاً :
پنڈلی سے پنڈلی کے لگ جانے کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا اور آخرت اس پر جمع ہو جاتی ہے، دنیا کا آخری دن ہوتا ہے اور آخرت کا پہلا دن ہوتا ہے جس سے سختی اور سخت ہو جاتی ہے ۔
رابعاً : پنڈلی پنڈلی سے مل جاتی ہے یعنی دو کام دو طرف جمع ہو جاتے ہیں ادھر تو لوگ اس کے جسم کو نہلا دھلا کر سپرد خاک کرنے کو تیار ہیں، ادھر فرشتے اس کی روح لے جانے میں مشغول ہیں، اگر نیک ہے تو عمدہ تیاری اور دھوم کے ساتھ۔‘‘
خامسا: دنیا کی ساری سختی آخرت کی سختی کے ساتھ مل جاتی ہے۔ جیسا کہ تشمیر عن ساق، شدت تنگی ظاہر کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے:

إذَا شَمَّرَتْ لَكَ عَنْ ساقها … فَرِنها رَبِيعُ وَلا تَسأَم

(تفسير طبري، زاد المسير لابن الجوزي، تفسير الماوردي)
5۔ ’’اس دن تیرے رب ہی کی طرف روانگی ہے۔‘‘
اس کے دو مطلب ہیں:
أولا : اب روانگی تو رب تعالیٰ کی طرف ہے ۔
ثانياً : اب ہمیشہ ہمیشہ کا ٹھکانہ اللہ تعالی کے پاس ہے، دنیا میں واپسی نہیں۔ (تفسير الماوردي)
اللہ تعالی ہمیں فکرِ آخرت کی توفیق دے اور سکرات الموت میں حق پر ثابت قدم رکھے ۔ آمین۔

حافظ محمد طاهر

یہ بھی پڑھیں: مومن عورتیں اپنی نظریں جھکا لیں