الحمدللہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ وبعد
بعض قابل قدر دوستوں کے ساتھ اس مسئلہ پر گفتگو ہوئی کہ کیا جس طرح کسی معتبر شرعی مصلحت کے لیے بطور حکایت کلمہ کفر کو نقل کیا جا سکتا ہے کیا اسی طرح کلمہ کفر یا فعل کفر کا محاکاۃ یعنی عامدا قاصدا اس کی ایکٹنگ کرنا، بھی جائز ہے؟
اور کیا یہ معاملہ قران مجید کے کفار کے کفریہ اقوال کو نقل کرنے کی مانند ہے یا ان دونوں معاملات (حکایت اور محاکاۃ) میں کچھ فرق بھی ہے۔
اس حساس مسئلہ پر اپنی گذارشات کو میں نے اختصار اور کچھ تفاصیل کو حذف کر کے درج ذیل نکات میں بیان کیا ہے۔
1۔ ہر وہ انسان جو مکلّف ہے وہ اپنے دیگر اعضاء کی طرح زبان کے معاملے میں بھی جوابدہ ہے اور اللہ رب العزت کے اوامر و نواھی انسان کے دیگر ظاہری اعضاء کی طرح زبان پر بھی لاگو ہوتے ہیں بلکہ زبان کی اہمیت دیگر اعضاء کے مقابلے میں زیادہ ہے، جیسا کہ متعدد احادیث میں موجود ہے۔
2۔ زبان کے حوالے سے جس قدر بھی منہیات شریعت میں آئی ہیں، بداخلاقی، جھوٹ اور بہتان تراشی، جھوٹی قسمیں کھانا، والدین کو برا بھلا کہنا ۔۔۔ ان تمام کے تمام منہیات کی فہرست میں علی الاطلاق سب سے بڑی ممانعت وہ کلمہ کفر پر تلفّظ کی ہے۔ اب ایک انسان کو چاہیے کہ وہ کلمہ کفر سے کم تر گناہوں پر وارد ہونے والی وعیدات کو ایک ایک کر کے دیکھے اور پھر تصور کرے کہ اگر بہتان تراشی، غیبت، جھوٹی قسم وغیرہ جیسے جرائم پر یہ وعید ہے تو کلمہ کفر تو بالاتفاق ان سب جرائم سے بڑا جرم ہے، اس پر تلفظ کس قدر سنگین ہو سکتا ہے۔
3۔ کلمہ کفر کے متعلق اصل یہ ہے کہ اس پر تلفظ حرام ہے، اس اصل سے عدول یعنی پھرنا صرف چند دو استثنائی حالات میں جائز ہے:
نمبر ایک ۔ انسان کو جان کا خطرہ ہو اور اسے کلمہ کفر کہنے پر مجبور کر دیا جائے تو وہ زبان سے اس پر تلفظ کر سکتا ہے تاہم اس کا دل ایمان پر قائم اور مضبوط ہو۔

{ مَن كَفَرَ بِٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ إِیمَـٰنِهِۦۤ إِلَّا مَنۡ أُكۡرِهَ وَقَلۡبُهُۥ مُطۡمَىِٕنُّۢ بِٱلۡإِیمَـٰنِ وَلَـٰكِن مَّن شَرَحَ بِٱلۡكُفۡرِ صَدۡرࣰا فَعَلَیۡهِمۡ غَضَبࣱ مِّنَ ٱللَّهِ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِیمࣱ }
[النساء: 106]

آیت مذکورہ میں تلفظ علی الکفر کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے اور صرف ایک صورت کا استثناء کیا گیا ہے کہ انسان اس پر مجبور کر دیا جائے۔ یعنی سوائے حالت مجبوری کے کہ جس میں انسان کی جان کو ایسا یقینی خطرہ لاحق ہو کہ جس کا ٹلنا بغیر کلمہ کفر کہے ممکن نہ ہو۔ صرف احتمال کی بنیاد پر یا ہلکے پھلکے خوف کی بنیاد پر اس کی اجازت نہیں ہے۔ اکراہ معتبر کیا ہوتا ہے اس کی تفصیل کتب فقہ میں یا تفاسیر میں مختلف مواضع پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
نمبر 2۔ انسان کلمہ کفر کو بطور خبر نقل کر رہا ہو اور اس کا یہ نقل کرنا شرعی طور پر معتبر مقصد کی غرض سے ہو۔ جیسا کہ قران مجید کا کفار کے بعض کفریہ اقوال کو نقل کرنا تاکہ ان کے کفر کی شناعت کو بیان کر سکے، کفار کے عناد اور کفر کی شدت کو بیان کر سکے، ان کے کفریہ اقوال کا دلائل عقلیہ و نقلیہ سے رد کر سکے والی غیر ذلک من المقاصد المھمۃ ۔ اور اسی قبیل سے اہل علم کا اپنی کتابوں میں کفریہ کلمات کو نقل کرنا بھی ہے، جس سے مقصود اس کا رد کرنا، اس کی شناعت کو بیان کرنا ہوتا ہے۔
معلوم ہوا کہ ایسی حالت اکراہ جو شریعت کے نزدیک معتبر ہو، اس کے علاوہ اور ایسے مقصد سے کہ جو شریعت کے یہاں معتبر ہو جیسے کسی جگہ رد کرنے کی غرض سے کفار کے کفریہ قول کو نقل کرنا ، ان دو صورتوں کے علاوہ زبان سے کلمہ کفر پر تلفظ کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ ومن یدعی الثالث فلیات بہ ودونہ خرط القتاد !
4۔ جس طرح انسان اپنے قلب کے بعض اعمال کی وجہ سے اسلام سے نکل جاتا ہے اسی طرح بعض اقوال اور بعض افعال کی وجہ سے بھی انسان کا ایمان برباد اور اعمال ضایع ہو جاتے ہیں اور انسان اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اور زبان سے تعلق رکھنے والے نواقض اسلام میں سب سے اوپر اللہ رب العزت کی ذات یا اس کی قدرت اور علم وغیرہ سے متعلق کفریہ کلمات ہیں۔
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ کبھی شخص معیّن پر حکم لگانے سے کوئی مانع موجود ہوتا ہے تاہم وہ موانع بھی شرع نے طے کر دیئے ہیں۔ یعنی اس شخص کا جاہل ہونا (یہ اس وقت مانع ہو گا کہ اگر وہ معاملہ معلوم فی الدین بالضرورۃ کی قبیل سے نا ہو، یا وہ شخص نیا نیا مسلمان ہو یا ایسے علاقے میں ہو جہاں اسلام حد درجہ اجنبی ہو) ،اس قول کو کہتے یا فعل کو کرتے وقت حالت اکراہ میں ہونا، نشے یا نیند میں ہونا، ذھول یا نسیان کے سبب ہونا وغیرہ۔
وگرنہ ایک شخص کا جانتے بوجھتے عمدا اور قصدا، یہ جانتے ہوئے کہ یہ کلمہ کفر ہے، بغیر ذھول ونسیان کے ایسے کلمات کو ادا کرنا چاہے بطور استخفاف ہو، استہزاء ہو ، ہنسی مذاق میں ہو، اس کے کفر میں مانع نہیں بنتا۔ ان موانع سے کلمات کفر کے عامدا قاصدا تلفظ کے جواز پر استدلال کرنا قطعا درست نہیں بلکہ خطاء فاحش ہے۔

{ وَلَىِٕن سَأَلۡتَهُمۡ لَیَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلۡعَبُۚ قُلۡ أَبِٱللَّهِ وَءَایَـٰتِهِۦ وَرَسُولِهِۦ كُنتُمۡ تَسۡتَهۡزِءُونَ ۔ لَا تَعۡتَذِرُوا۟ قَدۡ كَفَرۡتُم بَعۡدَ إِیمَـٰنِكُمۡۚ إِن نَّعۡفُ عَن طَاۤىِٕفَةࣲ مِّنكُمۡ نُعَذِّبۡ طَاۤىِٕفَةَۢ بِأَنَّهُمۡ كَانُوا۟ مُجۡرِمِینَ ۔}
[التوبہ: 65-66]

5۔ رہا یہ شبہ کہ درج ذیل دونوں صورتیں یکساں ہیں :
( ایک مسلمان شخص کا کسی کافر یا شک میں پڑے ہوئے شخص کی اداکاری کرتے ہوئے کلمات کفر کو ادا کرنا، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ کلمہ کفر ہے، اور وہ جان بوجھ کر قصدا ان کلمات کو ادا کر رہا ہے، اور وہ حالت اکراہ میں بھی نہیں ہے۔)
اور
(قران مجید کا کفار کے کفریہ اقوال کو نقل کرنا یا علماء کا کفریہ کلمات کو نقل کر کے ان پر رد کرنا)
تو یہ بالکل باطل ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں یعنی حکایت اور محاکاۃ میں بُعد المشرقین ہے۔
1۔ کسی قول کو نقل کرنے والا نقل کرتے وقت اس کی نسبت قائل اصلی کی طرف کر رہا ہوتا ہے۔
جیسا کہ قرآن مجید نے فرعون یا دیگر کفار کے مقالات نقل کیے ہیں۔
بخلاف اداکار کے کہ وہ اس کو پوری کوشش سے بتکلف اپنی جانب سے ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔
2۔ کسی قول کو شرعا معتبر ضرورت کے تحت نقل کرنے والے کے ساتھ درج ذیل قرائن لازما ہوتے ہیں
قرائن لفظیہ: مثلا ، نعوذ باللہ ، والعیاذ باللہ ،تعالی اللہ عما یقولون ، وغیرہ۔
قرائن حالیہ : اس کا اس کلام قبیح کو نقل کرنا عدم رضا اور ناپسندیدگی اور انکار کے ساتھ ہوتا ہے۔
قرینہ سیاق وسباق: اس کا اس کلام کو نقل کرنے کے ساتھ اس مقالہ کفر کا ابطال اور رد بھی عموماً متصل ہوتا ہے۔
جبکہ کسی کافر کی اداکاری کرنے والے میں یہ تینوں چیزیں معدوم ہونا ضروری ہیں تاکہ وہ حقیقت کے قریب ترین اداکاری کر سکے۔
6۔ چھٹی بات یہ ہے شرعی قاعدہ ہے کہ الضرورۃ تقدر بقدرھا ، ایسا کون سا “دینی پیغام” ہے کہ جس کا ابلاغ بغیر اداکار کے کلمۃ کفر پر تلفظ کیۓ ممکن نہیں ہے ،چنانچہ بجائے اس کے کہ احقاق حق ابطال باطل اور اقامت حجت اور تبلیغ دین کے شرعی اور مطلوب ومشروع طریقوں کو اپنایا جائے ایک مسلمان کو کلمہ کفر بول کر یہ تبلیغ دین کی ذمہ داری انجام دینی ہو گی۔ ساء ما یحکمون۔
7۔ ساتویں اور آخری بات یہ ہے کہ جس قدر شناعت نفوس میں گالم گلوچ کی ہوتی ہے، اس سے کہیں زیادہ شناعت اور کراہت مسلمانوں کے قلوب میں کلمات کفریہ کی ہونی چاہئے۔ یہ شرعا مطلوب بھی ہے بلکہ یہ ایمان کی حفاظت پر حریص ہونے کی نشانی ہے کہ انسان ایسے کلمات سے ایسے بھاگے جیسے انسان شیر سے بھاگتا ہے۔ بجائے ایسے کلمات سے ڈرنے اور بچنے کے، ان پر تکلم کو وہمی اور غیرشرعی مقاصد کی خاطر بھی روا سمجھنا کیسے درست ہو سکتا ہے۔

{ وَقَالُوا۟ ٱتَّخَذَ ٱلرَّحۡمَـٰنُ وَلَدࣰا ۔لَّقَدۡ جِئۡتُمۡ شَیۡـًٔا إِدࣰّا ۔ تَكَادُ ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠تُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡهُ وَتَنشَقُّ ٱلۡأَرۡضُ وَتَخِرُّ ٱلۡجِبَالُ هَدًّا ۔ أَن دَعَوۡا۟ لِلرَّحۡمَـٰنِ وَلَدࣰا ۔}
[مریم: 88-91]

{ وَقَالَتِ ٱلۡیَهُودُ یَدُ ٱللَّهِ مَغۡلُولَةٌۚ غُلَّتۡ أَیۡدِیهِمۡ وَلُعِنُوا۟ بِمَا قَالُوا۟ۘ بَلۡ یَدَاهُ مَبۡسُوطَتَانِ یُنفِقُ كَیۡفَ یَشَاۤءُۚ }
[المائدہ: 64]

( معلوم ہو کہ محاکاۃً کلمات کفریہ کو ادا کرنے والے کے ایمان اور کفر میں اہل علم کا اختلاف ہے تاہم اس کی حرمت پر کسی کا اختلاف نہیں ہے، ہمارا میلان بھی جیسا کہ شيخ ابن عثيمين رحمه الله نے کہا عدم کفر کی جانب ہی ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ عمل خطرناکی اور شناعت کے اعتبار سے کوئی کم ہے، کیا یہ بات کم ہے کہ معتبر اہل علم کے ہاں ایسا شخص اپنا اسلام ضائع کر بیٹھتا ہے۔

وإنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بالكَلِمَةِ مِن سَخَطِ اللَّهِ، لا يُلْقِي لها بالًا، يَهْوِي بها في جَهَنَّمَ.

(متفق عليه )

سید عبداللہ طارق