بوسہ اور اس کے احکام ومسائل

قارئین کرام! بوسہ فرط محبت کا ایک انداز ہے شریعت نے اظہار محبت میں بھی اپنے ماننے والوں کو ایک اسوہ دیا ہے ایک مؤمن کسی سے محبت بھی شریعت کے دائرے میں کرتا ہے تو نفرت بھی ۔ لہذا بوسہ کے حوالے سے ہماری کیا رہنمائی کی گئی ہے؟ آئیں اس کے مختصر احکام ومسائل ملاحظہ فرمائیں۔

1 رخسار پر بوسہ دینا

سیدنا براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

دَخَلْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ أَوَّلَ مَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ،‏‏‏‏ فَإِذَا عَائِشَةُ ابْنَتُهُ مُضْطَجِعَةٌ،‏‏‏‏ قَدْ أَصَابَتْهَا حُمَّى،‏‏‏‏ فَأَتَاهَا أَبُو بَكْرٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ لَهَا كَيْفَ أَنْتِ يَا بُنَيَّةُ ؟ وَقَبَّلَ خَدَّهَا.

میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ آیا جبکہ یہ لوگ نئے نئے مدینہ آئے تھے ، اور ان کی صاحبزادی سیدہ عائشہ‬ رضی اللہ عنہا بخار کی وجہ سے لیٹی ہوئی تھی، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے قریب ہوئے اور پوچھا : بٹیا تمہارا کیا حال ہے ؟ اور ان کے رخسار پر بوسہ دیا ۔
(سنن ابی داود: 5222)
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
ہاتھ اور پیشانی کی طرح رخسار کو بوسہ دینا بھی جائز ہے ہمارے علم کے مطابق اس کی مخالفت ثابت نہیں۔
(مصافحہ ومعانقہ کے احکام ومسائل: 25)

2 ہاتھ کو بوسہ دینا

سید نا اسامہ بن شریک ﷺ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، صحابہ آپ کے پاس اس طرح بیٹھے ہوۓ تھے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں ، پھر کچھ اعراب آۓ اور انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوالات کیے ۔ پھر جب آپ ﷺ کھڑے ہوۓ تو لوگ بھی کھڑے ہو گئے۔

ﻓﺠﻌﻠﻮا ﻳﻘﺒﻠﻮﻥ ﻳﺪﻩ ، ﻓﺄﺧﺬﺗﻬﺎ ﻭﻭﺿﻌﺘﻬﺎ ﻋﻠﻰ ﻭﺟﻬﻲ ، ﻓﺈﺫا ﻫﻲ ﺃﻃﻴﺐ ﻣﻦ ﺭﻳﺢ اﻟﻤﺴﻚ، ﻭﺃﺑﺮﺩ ﻣﻦ اﻟﺜﻠﺞ.

پھر لوگ آپ کے ہاتھ کو بوسہ دینے لگے ۔ میں نے بھی آپ کا ہاتھ تھام کر اپنے چہرے پر رکھا جو کہ مشک کستوری سے زیادہ معطر اور برف سے زیادہ ٹھنڈا تھا ۔

(القبل والمعانقة والمصافحة لإن الأعرابي: 3)

اسی طرح عاصم بن بہدلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ﻣﺎ ﻗﺪﻣﺖ ﻋﻠﻰ ﺃﺑﻲ ﻭاﺋﻞ ﻗﻂ ﻣﻦ ﺳﻔﺮ ﺇﻻ ﻗﺒﻞ ﻛﻔﻲ.

میں جب بھی کسی سفر سے واپس ہوکر ابو وائل شقیق بن سلمہ رحمہ اللہ کے پاس آتا تو وہ میری ہتھیلی کو بوسہ دیتے۔

(القبل والمعانقة والمصافحة لإن الأعرابي: 5)

مالک بن مغلول رحمہ اللہ سے روایت ہے:

ﺃﻧﻪ ﻗﺒﻞ ﻳﺪ ﺧﻴﺜﻤﺔ. ﻗﺎﻝ ﻣﺎﻟﻚ: ﻭﻗﺒﻞ ﻃﻠﺤﺔ ﻳﺪﻱ.

طلحہ بن مصرف نے خیثمہ کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور مالک بیان کرتے ہے : طلحہ نے میرے ہاتھ کو بوسہ دیا۔

(القبل والمعانقة والمصافحة لإن الأعرابي: 6)

حسین بن علی الجعفی کہتے ہیں:
بسا اوقات سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ میرا ہاتھ چوم لیا کرتے تھے۔

(القبل والمعانقة والمصافحة لإن الأعرابي: 7)

محقق العصر حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے مندرجہ بالا آثار کو حسن اور صحیح کہا ہے ۔
اور ان کے تحت لکھا ہے کہ: تکریم کے غرض سے ہاتھ کو بوسہ دینا جائز ہے۔ مزید رقمطراز ہیں : بہتر یہی ہے کہ کسی کو ایک مدت کے بعد ملا جائے تبھی بوسہ دیا جائے روزانہ ملاقات پر اس سے اجتناب کیا جائے۔ ملاحظہ ہو:

(القبل والمعانقة المصافحة بتحقيقه)

3 عام ملاقات میں ایک دوسرے کو بوسہ دینا

سعودی فٹاوی کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ:
ایک بھائی کا اپنے بھائی کو اللہ کی رضا کے لیے اس کے چہرے پر بوسہ دینے کا کیا حکم ہے؟ نیز اس حوالے سے صحابہ کرام کے آثار کیا ہیں؟

اﻷﻓﻀﻞ اﻻﻛﺘﻔﺎء ﺑﺎﻟﻤﺼﺎﻓﺤﺔ ﻓﻲ اﻟﻠﻘﺎءاﺕ اﻟﻌﺎﺩﻳﺔ، ﺇﻻ ﺇﺫا ﻗﺪﻡ ﻣﻦ اﻟﺴﻔﺮ ﻓﻼ ﺑﺄﺱ ﺑﺎﻟﻤﻌﺎﻧﻘﺔ.

شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا: افضل یہ ہے کہ عام حالات کی ملاقات میں صرف مصافحے پر اکتفاء کیا جائے جب سفر سے واپسی ہو تو معانقے میں کوئی حرج نہیں۔
(فتاوى اللجنة الدائمة: 127/24)

4 بچوں کو بوسہ دینا

بچوں کو بوسہ دینا رحمت ہے۔ کچھ اعرابی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا : کیا تم لوگ اپنے بچوں کو چومتے ہو ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا : ہاں۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم تو اپنے بچوں کو نہیں چومتے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا :

وَأَمْلِكُ أَنْ كَانَ اللَّهُ قَدْ نَزَعَ مِنْكُمْ الرَّحْمَةَ.

یہ میرے اختیار کی بات تو نہیں جب اللہ نے تمہارے اندر سے رحم کا جذبہ سلب کر لیا ہے ۔
(صحيح مسلم: 2317)
اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا۔ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ کہنے لگے: میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ. جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
(صحیح بخاری: 5997)

5 ميت کو بوسہ دینا

فرط محبت سے میت کو بوسہ دینا جائز ہے۔ بشرط کہ وہ برکت وغیرہ کی نیت سے نہ ہو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:

أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ وَهُوَ مَيِّتٌ وَهُوَ يَبْكِي أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی الله عنہ کا بوسہ لیا وہ انتقال کر چکے تھے آپ رو رہے تھے۔ یا راوی نے کہا: آپ کی دونوں آنکھیں اشک بار تھیں۔
(سنن ترمذی: 989)
آپ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے :

أَنَّ أَبَا بَكْرٍ قَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مَيِّتٌ.

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا ۔
(سنن النسائي: 1840)
سعودی فتاوی کمیٹی کی فتوی ہے :

ﺃﻣﺎ ﺗﻘﺒﻴﻞ اﻟﻤﻴﺖ ﻟﻠﻤﺤﺒﺔ ﻻ ﻟﻠﺘﺒﺮﻙ ﻓﻼ ﺑﺄﺱ ﺑﺬﻟﻚ،
ﻷﻧﻪ ﻗﺪ ﺛﺒﺖ ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ اﻟﺼﺪﻳﻖ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻗﺒﻞ اﻟﻨﺒﻲ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – ﺑﻴﻦ ﻋﻴﻨﻴﻪ ﺑﻌﺪ ﻣﻮﺗﻪ، ﻟﻜﻦ ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﺫﻟﻚ ﻣﻦ اﻟﻤﺮﺃﺓ ﺇﻻ ﻟﻤﺤﺮﻣﻬﺎ ﻣﻦ اﻟﺮﺟﺎﻝ، ﻭﻻ ﻣﻦ اﻟﺮﺟﺎﻝ ﻟﻠﻨﺴﺎء ﺇﻻ ﺇﺫا ﻛﻦ ﻣﻦ ﻣﺤﺎﺭﻣﻬﻢ.

رہی بات میت کو چومنے کی تو فرط محبت سے ایسا کرنا جائز ہے شرط ہے کہ یہ برکت کی نیت سے نہ ہو۔
کیونکہ یہ عمل سنت سے ثابت ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی پیشانہ کو بوسہ دیا تھا۔ یہ عمل عورتوں کے لیے جائز نہیں سوائے اس صورت کے کہ مرنے والا اس کا محرم ہو اور مردوں کے لیے بھی جائز نہیں سوائے اس صورت کے کہ مرنے والا اس کا محرم ہو۔
(فتاوی اللجنة الدائمة: 163/9)

6 حجر اسود کو بوسہ دینا

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:

رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ.

میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجر اسود کو چھوتے اور چومتے دیکھا ہے۔
(صحیح بخاری: 1611)
اسی طرح حدیث میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دیا اور فرمایا:

إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ.

میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے میں نہ دیکھتا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔
(صحیح بخاری: 1597)

7 طواف کے بغیر حجر اسود کو بوسہ دینا

سعودی فتوی کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ بغیر طواف کے حجر اسود کو بوسہ دینا کیسا ہے؟ تو کمیٹی نے جواب دیا:

ﻻ ﻳﺸﺮﻉ ﺗﻘﺒﻴﻞ اﻟﺤﺠﺮ اﻷﺳﻮﺩ ﻓﻲ ﻏﻴﺮ اﻟﻄﻮاﻑ؛ ﻷﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻳﻔﻌﻠﻪ ﺇﻻ ﻓﻲ اﻟﻄﻮاﻑ.

بغیر طواف کے حجر اسود کو بوسہ دینا مشروع نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف طواف میں حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے اس کے علاوہ نہیں دیتے تھے۔
(فتاوی اللجنة الدائمة: 238/10)
فقیہ العصر علامہ صالح عثیمین فرماتے ہیں:

ﺃﻥ ﺗﻘﺒﻴﻞ اﻟﺤﺠﺮ اﻷﺳﻮﺩ ﻣﻦ ﺳﻨﻦ اﻝﻃﻮاﻑ، ﻭﺃﻥ ﺗﻘﺒﻴﻠﻪ ﺑﺪﻭﻥ ﻃﻮاﻑ ﻟﻴﺲ ﺑﻤﺸﺮﻭﻉ.

حجر اسود کو بوسہ دینا طواف کی سنتوں میں سے ہے بغیر طواف کے حجر اسود کو بوسہ دینا مشروع نہیں ہے
(مجموع فتاوى ورسائل العثيمين: 326/22)

8 کعبے کے دیواروں کو بوسہ دینا

حجر اسود کے علاوہ کعبے کے دیواروں یا حرم کے دیواروں دروازوں چوکھٹوں کو بوسہ دینا مشروع نہیں سعودی فتوی کمیٹی کا فتوی ہے:
اﻟﻤﺸﺮﻭﻉ ﺗﻘﺒﻴﻞ اﻟﺤﺠﺮ اﻷﺳﻮﺩ، ﻭﻗﺪ ﺛﺒﺖ ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺒﻞ اﻟﺤﺠﺮ اﻷﺳﻮﺩ ﻭﻟﻢ ﻳﻘﺒﻞ ﻏﻴﺮﻩ ﻣﻦ اﻟﻜﻌﺒﺔ اﻟﻤﺸﺮﻓﺔ.
صرف حجر اسود کو بوسہ دینا مشروع ہے رسول اللہ ﷺ نے حجر اسود کو بوسہ دیا لیکن اس کے علاوہ کعبے کو بوسہ نہیں دیا۔
(فتاوی اللجنة الدائمة: 229/11)

9 رکن یمانی کو بوسہ دینا

رسول اللہ نے رکن یمانی کو صرف چھوا ہے بوسہ نہیں دیا علامہ البانی رحمہ اللہ حج وعمرہ میں کیے جانے والی بدعات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ﺗﻘﺒﻴﻞ اﻟﺮﻛﻦ اﻟﻴﻤﺎﻧﻲ.
اور رکن یمانی کو بوسہ دینا۔
(مناسك الحج والعمرة: 50/1)

10 شامی ارکان کو چومنا یا ان کا استلام کرنا

شامی ارکان کو چومنا یا ان کا استلام کرنا مشروع نہیں علامہ البانی رحمہ اللہ حج وعمرہ میں کیے جانے والی بدعات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ﺗﻘﺒﻴﻞ اﻟﺮﻛﻨﻴﻦ اﻟﺸﺎﻣﻴﻴﻦ ﻭاﻟﻤﻘﺎﻡ ﻭاﺳﺘﻼﻣﻬﻤﺎ.

شامی ارکان کو چھونا اور بوسہ دینا۔
(مناسك الحج والعمرة: 50/1)

11 رسول اللہ ﷺ کا نام سن کر انگوٹھی چومنا

سعودی فتوی کمیٹی کا فتوی ہے:

ﺗﻘﺒﻴﻞ اﻹﺑﻬﺎﻣﻴﻦ ﻋﻨﺪ اﺳﺘﻤﺎﻉ اﺳﻢ اﻟﻨﺒﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻲ اﻷﺫاﻥ ﻭﻏﻴﺮﻩ ﺑﺪﻋﺔ ﻻ ﺃﺻﻞ ﻟﻬﺎ.

اذان یا اذان کے علاوہ عام حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر انگوٹھے چومنا بدعت ہے جس کا کوئی اصل نہیں۔
(فتاوی اللجنة الدائمة: 190/2)

12 مصحف کو بوسہ دینا

علامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ﺇﻥ ﺗﻘﺒﻴﻞ اﻟﻤﺼﺤﻒ ﺑﺪﻋﺔ ﻟﻴﺲ ﺑﺴﻨﺔ……. لم ﻳﻜﻦ ﻓﻲ ﻋﻬﺪ اﻟﺮﺳﻮﻝ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺼﻼﺓ ﻭاﻟﺴﻼﻡ ﻭﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻓﻲ ﻋﻬﺪ اﻟﺼﺤﺎﺑﺔ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻢ.

قرآن مجید کو بوسہ دینا بدعت ہے مسنون نہیں، یہ عمل نہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں ہوتا تھا نہ صحابہ کے دور میں۔
(فتاوى نور على الدرب للعثيمين: 2/4)
سعودی فتوی کمیٹی کا مزید کہنا ہے:

ﻻ ﻧﻌﻠﻢ لتقبيل اﻟﺮﺟﻞ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﺃﺻﻼ.

ﻭﺑﺎﻟﻠﻪ اﻟﺘﻮﻓﻴﻖ.
آدمی کے قرآن مجید کو چومنے کے متعلق ہمیں کوئی دلیل معلوم نہیں۔
(فتاوی اللجنة الدائمة: 152/4)

13 نیک عالم کا ہاتھ چومنا

علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ﻓﻬﺬا ﻳﺠﻮﺯ ﺃﺣﻴﺎﻧﺎً ﻭﻟﻴﺲ ﻋﺎﺩﺓ ﺑﻤﻌﻨﻰ ﻛﻤﺎ ﻳﻔﻌﻞ اﻟﺼﻮﻓﻴﺔ.

کبھی کبھی چوم لینا جائز ہے، لیکن اس کو عادت نہ بنایا جائے جیسا کہ صوفیوں کی عادت ہے۔
(موسوعة الألباني في العقيدة: 925/3)

14 قبر کو بوسہ دینا

اکثر لوگو جب قبروں کی زیارت کے لیے جاتے ہیں تو ان کو بوسے دیتے ہیں جو ہرگز درست نہیں اسلام نے صرف قبروں کی زیارت اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے کا حکم دیا ہے۔ پیر عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وإذا زار قبرا لا يضع يده عليه، ولا يقبله، فإنه عادة اليهود.

جب کوئی شخص قبر کی زیارت کرے تو نہ اس پر ہاتھ رکھے نہ بوسہ دے، کیونکہ یہ یہود کی عادت ہے۔
(الغنية لطالبي طريق الحق، ص: 44)
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ﻭﺃﻣﺎ ﺗﻘﺒﻴﻞ اﻟﻘﺒﺮ ﺃﻭ ﺗﻘﺒﻴﻞ اﻟﺸﺒﺎﻙ ﺃﻭ اﻟﺘﻤﺴﺢ ﺑﺎﻟﻘﺒﺮ، ﻓﻜﻞ ﻫﺬا ﻻ ﻳﺠﻮﺯ، ﻭاﻟﺬﻱ ﻳﻘﻒ ﻋﻨﺪ اﻟﻘﺒﺮ ﻳﺴﻠﻢ ﻓﻘﻂ. ﻭﻳﺪﻋﻮ ﻟﻠﻤﻴﺖ.

قبر کو بوسہ دینا یا چوکھٹ کو بوسا دینا یا قبر کو چھونا یہ ساری چیزیں جائز نہیں ہیں۔ جو شخص قبر کے پاس کھڑا ہو وہ فقط اسے سلام کرے اور اس کی مغفرت کے لیے دعا کرے۔
(مجموع فتاوى ابن باز: 277/1)

15 نبی ﷺ کی قبر کو بوسہ دینا

بعض لوگ مسجد نبوی کے دیواروں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر کی جالی کو بوسہ دینے کی کوشش کرتے ہیں جو درست نہیں، اس سے شرک اور بد عقیدگی کا دروازہ کھلتا ہے۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

ﻭاﺗﻔﻖ اﻟﻌﻠﻤﺎء ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻣﻦ ﺯاﺭ ﻗﺒﺮ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻭ ﻗﺒﺮ ﻏﻴﺮﻩ ﻣﻦ اﻷﻧﺒﻴﺎء ﻭاﻟﺼﺎﻟﺤﻴﻦ اﻟﺼﺤﺎﺑﺔ ﻭﺃﻫﻞ اﻟﺒﻴﺖ ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﺘﻤﺴﺢ ﺑﻪ ﻭﻻ ﻳﻘﺒﻠﻪ.

علماء کا اتفاق ہے کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کی قبر کی زیارت کرے یا کسی نبی، صالح یا صحابی کے قبر کی زیارت کرے وہ قبر کو نہ چھوئے نہ بوسہ دے۔
(مجموع الفتاوی: 79/27)
علامہ صالح بن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فإن فعله عبادة لله وتعظيما لرسول الله فهو بدعة وطل بدعة ضلالة…. وإما إن كان مسح جدار الحجرة وتقبيله مجرد عاطفة أو عبث فهو سفه وضلال لا فائدة فيه بل فيه ضرر.

اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کی دیوار کو اللہ تعالی کی عبادت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی نیت سے چوما جائے تو یہ بدعت ہے، اگر صرف محبت یا ویسے ہی چوما جائے تو یہ بے وقوفی اور جہالت ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے۔
(مجموع فتاوى ورسائل للعثيمین: 299/17)

16 روزے کی حالت میں بیوی کو بوسا دینا

روزے کی حالت میں بیوی کو بوسہ دیا جا سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔
سیدنا ام سلمی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

وَكَانَتْ هِيَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْتَسِلَانِ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ ، وَكَانَ يُقَبِّلُهَا وَهُوَ صَائِمٌ .

آپ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل جنابت کیا کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہونے کے باوجود ان کا بوسہ لیتے تھے۔
(صحیح بخاری: 1929)

17 بیوی کو بوسہ دینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا

سعودی فتوی کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ کیا روزے کی حالت میں بیوی کو بوسہ دینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا:

ﺗﻘﺒﻴﻞ اﻟﺼﺎﺋﻢ ﻟﻠﻤﺮﺃﺓ ﻻ ﻳﻔﻄﺮ، ﻷﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﻳﻘﺒﻞ ﻧﺴﺎءﻩ ﻭﻫﻮ ﺻﺎﺋﻢ.

روزے کی حالت میں بیوی کو بوسہ دینے سے روزی نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی ازواج کو بوسہ دیا کرتے تھے۔
(فتاوی اللجنة الدائمة: 163/9)

18 بیوی کو بوسہ دینے سے وضو نہیں ٹوٹتا

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُقَبِّلُ بَعْضَ أَزْوَاجِهِ ثُمَّ يُصَلِّي وَلَا يَتَوَضَّأُ.

نبی ﷺ اپنی بعض بیویوں کو بوسہ دیتے ، پھر نماز پڑھتے اور نیا وضو نہیں کرتے۔
(سنن نسائی: 170)

19 ہونے والی ساس کا ہاتھ چومنا

علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ:
میرے چچا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا مجھ سے نکاح کرے گا، لڑکی کی عمر اس وقت بارہ سال ہے، لڑکی کی ماں اور لڑکی خود دونوں اس رشتے پر راضی ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا لڑکی کی والدہ میرے لیے محرم ہیں؟ اب جب وہ دور سے تشریف لاتی ہیں یا زیادہ دیر کے بعد آتی ہیں تو کیا میں اس کا ہاتھ چوم سکتا ہوں، کیا مجھ پر کوئی گناہ ہے؟
آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا:

ﻳﺤﺮﻡ ﻋﻠﻴﻚ ﺗﻘﺒﻴﻞ ﺯﻭﺟﺔ ﻋﻤﻚ ﻭﻟﻮ ﻛﻨﺖ ﺧﺎﻃﺒﺎ ﻻﺑﻨﺘﻬﺎ ﻣﺎﺩﻣﺖ ﻟﻢ ﺗﻌﻘﺪ ﻋﻠﻴﻬﺎ، ﻭﻟﺴﺖ ﺑﻤﺤﺮﻡ ﻟﻬﺎ ﻭاﻟﺤﺎﻟﺔ ﻫﺬﻩ.

آپ پر اپنی چچی کا ہاتھ چومنا حرام ہے اگرچہ آپ اس نے اس کی بیٹی کو نکاح کا پیغام دے رکھا ہے، جب تک یہ رشتہ طے نہیں ہوتا وہ آپ کے لیے غیر محرم ہے۔
(فتاوی اللجنة الدائمة: 432/17

20 تعزیت کے وقت بوسہ دینا

علامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ﺗﻘﺒﻴﻞ ﺃﻗﺎﺭﺏ اﻟﻤﻴﺖ ﻋﻨﺪ اﻟﺘﻌﺰﻳﺔ ﻻ ﺃﻋﻠﻢ ﻓﻴﻪ ﺳﻨﺔ، ﻭﻟﻬﺬا ﻻ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﻟﻠﻨﺎﺱ ﺃﻥ ﻳﺘﺨﺬﻭﻩ ﺳﻨﺔ، ﻷﻥ اﻟﺸﻲء اﻟﺬﻱ ﻟﻢ ﻳﺮﺩ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻻ ﻋﻦ ﺃﺻﺤﺎﺑﻪ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻢ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﻟﻠﻨﺎﺱ ﺃﻥ ﻳﺘﺠﻨﺒﻮﻩ.

تعزیت کے وقت میت کے اقرباء کو بوسہ دینے کے متعلق میں سنت سے کوئی دلیل نہیں پاتا، لہذا لوگوں کے لیے جائز نہیں کہ اسے سنت بنا لیں، کیونکہ جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کے صحابہ سے ثابت نہیں ہے لوگوں کو اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
(مجموع فتاوی ورسائل للعثیمین: 352/17)

21 رشتیدار عورتوں کو بوسہ دینا

سعودی علماء سے سوال کیا گیا کہ: میں آج کل ریاض شہر میں رہتا ہوں اور یہاں میرے رشتہ دار بھی رہتے ہیں، جو انتہائی قریبی ہیں۔ مثلاً میری خالہ کی بیٹیاں، میرے چچاؤں کی بیویاں اور ان کی بیٹیاں۔ میں جب انہیں ملنے جاتا ہوں تو انہیں سلام کہتا ہوں۔ وہ مجھے بوسہ دیتی ہیں اور میرے ساتھ بیٹھ جاتی ہیں اور پردہ نہیں کرتیں اور میں اس طور طریقہ سے تنگی محسوس کرتا ہوں۔
جواب: یہ عادت بری، منکر اور شریعت مطہرہ کے خلاف ہے۔ آپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ آپ انہیں بوسہ دیں یا ان سے مصافحہ کریں۔ کیونکہ چچاؤں کی بیویاں، چچا کی اور ماموں کی بیٹیاں آپ کے لیے محرم نہیں ہیں۔ ان پر واجب ہے کہ وہ آپ سے پردہ کریں۔
(فتاوی اسلامیہ: 207/1)

22 بالغ بیٹی کو بوسہ دینا

سعودی علماء سے سوال ہوا کہ: کیا کسی شخص کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو بوسہ دے۔ جب وہ بڑی ہو جائے اور سن بلوغت سے آگے نکل جائے۔ خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اور خواہ اس کے رخسار کا بوسہ لیا جائے یا منہ وغیرہ کا، اور جب وہ انہی مقامات کا بوسہ لے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر کوئی شخص بلا شہوت اپنی بیٹی کا، خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی ہو، بوسہ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور جب وہ بڑی ہو تو بوسہ اس کے رخسار پر ہونا چاہیے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ آپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رخسار کا بوسہ لیا تھا۔چونکہ منہ کا بوسہ لینا کبھی جنسی شہوت کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ لہٰذا اسے ترک کرنا ہی بہتر اور محتاط روش ہے۔ اسی طرح اگر بیٹی اپنے باپ کا بوسہ لے تو بلا شہوت اس کے ناک یا سر کا بوسہ لے اور اگر شہوت کے ساتھ ہو تو سب کے لیے حرام ہوگا تا کہ فتنہ کا قلع قمع اور بے حیائی کا سدباب ہو۔
(فتاوی اسلامیہ: 270/1)

23 رضاعی باپ کے سر کو بوسہ دینا

سعودی فتوی کمیٹی کے علماء رقمطراز ہیں:

اﻟﺮﺿﺎﻉ اﻟﻤﺤﺮﻡ ﻣﺎ ﻛﺎﻥ ﺧﻤﺲ ﺭﺿﻌﺎﺕ ﻓﺄﻛﺜﺮ ﻓﻲ اﻟﺤﻮﻟﻴﻦ، ﻓﺈﺫا ﻛﺎﻥ ﺭﺿﺎﻉ اﻟﺒﻨﺖ ﻛﺬﻟﻚ ﻓﻬﻲ اﺑﻨﺔ ﻟﺰﻭﺝ اﻟﻤﺮﺿﻌﺔ ﻣﻦ اﻟﺮﺿﺎﻋﺔ، ﻭﻳﺠﻮﺯ ﻟﻠﺒﻨﺖ اﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻴﻪ ﻣﺼﺎﻓﺤﺘﻪ ﺑﺎﻟﻴﺪ ﻭﺗﻘﺒﻴﻞ ﺭﺃﺳﻪ ﺗﻜﺮﻳﻤﺎ ﻟﻪ.

حرمت کے لیے دو سالوں کے درمیان پانچ بار یا اس سے زائد بار دودھ پینا شرط ہے اگر لڑکی نے اسی طرح دودہ پیا ہے تو ایسی خاتون مرضعہ کے خاوند کی رضاعی بیٹی شمار ہوگی اور ایسی عورت کے لیے اپنے رضاعی باپ کو سلام کرنے یا مصافحہ کرنے یا اس کی تکریم کرتے ہوئے اس کے سر کو بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں ۔
(فتاوى اللجنة الدائمة: 382/17)

24 منگیتر کو بوسہ دینا

سعودی فتوی کمیٹی کے علماء رقمطراز ہیں:

ﻻ ﺗﺠﻮﺯ اﻟﺨﻠﻮﺓ ﺑﺎﻟﻤﺮﺃﺓ اﻟﻤﺨﻄﻮﺑﺔ ﻭﻻ تقبيلها ﻭﻻ ﻟﻤﺴﻬﺎ، ﻷﻧﻬﺎ ﺑﻤﻨﺰﻟﺔ اﻟﻤﺮﺃﺓ اﻷﺟﻨﺒﻴﺔ ﻗﺒﻞ ﻋﻘﺪ اﻟﻨﻜﺎﺡ اﻟﺼﺤﻴﺢ.

منگیتر سے خلوت اختیار کرنا، اسے بوسہ دینا اور اسے چھونا جائز نہیں، کیونکہ وہ نکاح سے قبل ایک اجنبی عورت کی طرح ہے۔
(فتاوی اللجنة الدائمة: 172/18)

محمد سلیمان جمالی سندھ پاکستان

یہ بھی پڑھیں: تعارف شعبہ جات جامعہ سلفیہ فیصل آباد کا مختصر تعارف