دین کے مسائل۔۔۔۔اور ہماری نام نہاد شرم

دور حاضر میں بہت سے لوگ بلخصوص نوجوان نسل دین کے بنیادی مسائل سے اس قدر کورے ہیں کہ استنجاء،غسل،وضوء وغیرہ جیسے اہم مسائل سے بھی لاعلم ہیں۔
جسکی بنیادی وجہ ہماری ”نام نہاد شرم” ہے۔نوجوان نسل شرم کے مارے پوچھتے نہیں اور علماء اس پر گفتگو نہیں کرتے،جسکے نتیجہ میں ہماری نوجوان نسل لاعلمی کے گھڑے میں پھسلتی جا رہی ہے۔
یاد رکھیں
دین کے مسائل سمجھنے،سیکھنے اور پوچھنے میں بلکل بھی شرمیلہ پن نہیں ہونا چاہیئے۔ ورنہ پوری زندگی ہم لا علم ہی رہیں گئے۔
امام مجاھدؒ فرماتے ہیں:
لاَ يَتَعَلَّمُ الْعِلْمَ مُسْتَحْىٍ وَلاَ مُسْتَكْبِرٌ (بخاری)
کہ متکبر اور شرمانے والا آدمی علم حاصل نہیں کر سکتا۔(بخاري)
اس لئے علم سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس نام نہاد شرمیلہ پن کو ختم کر کے دین کے مسائل سیکھیں۔
نبیﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَيِيٌّ سِتِّيرٌ يُحِبُّ الْحَيَاءَ وَالسَّتْرَ،
”اللہﷻ حیاء دار ہے پردہ پوشی کرنے والا ہے اور حیاء اور پردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے۔ (ابوداؤد 4012)

آپ اندازہ کریں کہ وہ اللہ کی ذات کتنی حیاء اور پردہ والی ہے،لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے شرعیت کے مسائل کوبلکل واضح نازل کرتے ہوئے فرمایا:
وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ
اور اللہ حق(بیان)سے شرم نہیں کرتا۔ (الاحزاب 53)

اسیطرح ہمارے نبیﷺبھی بہت شرم و حیا والے ہیں
ارشادِ باری ہے
فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ (الاحزاب 53)
تو وہ(نبیﷺ)تم سے شرم کرتے ہیں۔
صحابیؓ بیان کرتے ہیں:
کَانَ النَّبِيُّﷺ أَشَدّ حَیَائً مِنَ الْعَذْرَائِ فِيْ خِدْرِھَا۔ )
’’ نبیﷺ پردے میں رہنے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ ‘‘(بخاری)
آپ اندازہ کریں کہ ہمارےنبیﷺ کس قدر حیاءدار تھے،لیکن اسکے باوجود لوگوں کو دین کے مسائل بتاتے تھے حتیٰ کہ خواتین اپنے پردہ والے مسائل بھی پوچھا کرتی تھی اور آپﷺ انکو بتایا بھی کرتے تھے۔ہلانکہ وہ خواتین دنیا کی عزت ترین اور باحیاء عورتیں تھی لیکن دین سمجھنے کیلئے ”شرم” رکاوٹ نہیں بناتی تھی

اسی لئے حضرت عائشہؓ تعریف کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
نِعْمَ النِّسَاءُ نِسَاءُ الأَنْصَارِ لَمْ يَمْنَعْهُنَّ الْحَيَاءُ أَنْ يَتَفَقَّهْنَ فِي الدِّينِ‏.‏
کہ انصار کی عورتیں کتنی خوش نصیب اور اچھی عورتیں ہیں کہ ”شرم” انہیں دین(کے مسائل ) سمجھنے میں مانع نہیں هوتی۔ (بخاری)
صحابیاتؓ کو جو بھی مسئلہ پیش آتا حتی کہ پردہ والا بھی کیوں نہ ہو صحابیاتؓ بغیر شرم کیے رسول اللہﷺ سے پوچھ لیا کرتی تھی۔

حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں:
أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، فَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ الْغَسْلُ إِذَا احْتَلَمَتْ، قَالَ:” نَعَمْ إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ فَضَحِكَتْ أُمُّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ: تَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَبِمَ يُشْبِهُ الْوَلَدُ”.

ام سلیم ؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا، تو (آپ بتائیں) کیا اگر عورت کو احتلام ہو تو اس پر بھی غسل ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”ہاں بشرطیکہ وہ تری دیکھ لے۔“
ام المؤمنین ام سلمهؓ کو اس بات پر ہنسی آ گئی اور فرمانے لگیں، کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
”(اگر ایسا نہیں ہے) تو پھر بچے میں (ماں کی) مشابہت کہاں سے آتی ہے۔“ (بخاری 3328)

تو معلوم ہوا دین کے مسائل سمجھنے میں کبھی بھی شرم نہیں کرنی چاہیئے،
اگرچہ حیاء ایمان کا ایک جزء ہے جسکا آجانا ایک فطرتی عمل ہے لیکن آپ اگر ایک سے شرم کر رہے ہیں تو کسی دوسرے سے مسئلہ پوچھ لیں یا خود نہیں پوچھ سکتے کسی ذرائع سے پوچھ لیں۔۔
کیونکہ دینی مسئلہ سے شرم کی بنیاد پر لاعلم رہنا یہ بلکل مناسب نہیں ہے
حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً، وَكُنْتُ أَسْتَحْيِي أَنْ أَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَكَانِ ابْنَتِهِ، فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ بْنَ الأَسْوَدِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: ” يَغْسِلُ ذَكَرَهُ، وَيَتَوَضَّأُ “.
مجھے مذی (مذی رقیق اور لیس دار پانی ہے جو بیوی سے بوس و کنار اور جماع کی یاد اور ارادے کے وقت مرد کی شرمگاہ سے خارج ہوتا ہے۔ )بهت زیادہ آتی تھی اور میں آپ کی بیٹی کے (ساتھ) رشتے کی وجہ سے براہ راست نبی کریمﷺ سے پوچھنے میں شرم محسوس کرتا تھا۔ میں نے مقداد بن اسودؓ سے کہا، انہوں نےآپ سے پوچھا، آپ نے فرمایا: ” (اس میں متبلا آدمی) اپنا عضو مخصوص دھوئے اور وضو کر لے۔“

تو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر آپ کسی سے شرم رکھتے ہیں تو کسی دوسرے ذریعے سے مسئلہ پوچھ لیں،نہ کہ پوری زندگی اسی شرم کی وجہ سے لاعلم ہی رہیں۔۔
نوٹ:
عنوان میں شرم و حیا کو ”نام نہاد شرم” اس لئے کہا ہے،کیوں کہ ہم دین کے مسائل میں شرم کرتے ہیں لیکن جب ہم جھوٹ،غیبت،طعنہ،ظلم،گناہ کرتے ہیں تو بلکل بھی شرم نہیں کرتے ہلانکہ شرم ہی انسان کو گناہوں سے بچاتی ہے۔
نبی نے فرمایا:
إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ”
. جب شرم ہی نہ رہی تو پھر جو جی چاہے وہ کرے۔“ (بخاری 6122)
بس اس دوغلہ پالیسی کی وجہ سے نام نہاد شرم کا عنوان دیا گیا ہے۔

تحریر:ابو محمد اویس قرنی

یہ بھی پڑھیں: نواقضِ وضوء