چند دن پہلے ڈرائیونگ سنٹر لبرٹی مارکیٹ لاھور جانے کا اتفاق ہوا۔ سنٹر میں صبح سویرے ہی حسب معمول سے زیادہ رش دیکھنے کو ملا۔ سنٹر میں انٹر ہوتے ساتھ ہی ایک نوجوان کو یہ شور وغل کرتے سنا کہ ٹوکن کے مطابق ڈرایئونگ لائسنس کا ٹرائیل نہیں لیا جا رہا۔ بلکہ بعد میں آنے والوں کو جو پیسے (رشوت) دے رہیں ہیں، کا پہلے امتحان لیا جا رہا ہے۔ اس پر وہاں موجود خرم نامی سب انسپیکٹر اس نوجوان سے انتہائ بدتمیزی سے پیش آیا۔ اور دھمکی آمیز لہجے میں اس نوجوان کو خاموش رہنے کیلئے کہا گیا۔
شروع میں لگا کہ شاید وہ نوجوان بے صبری کی وجہ سے ٹریفک ملازمین پر چڑھائی کر رہا ہے۔ مگر جب بے شمار لوگوں کو لائن سے ہٹ کر دستاویزات جمع کرواتے دیکھا تو یقین ہو گیا کہ نوجوان درست کہہ رہا تھا۔ ایک اور حیران کن بات یہ تھی کہ فائل کے ساتھ چند سو روپے کے نوٹ لف تھے۔ میں سمجھا کہ شاید لائسنس کی سرکاری فیس ہے۔ مگر کائونٹر پر موجود عمران نامی انسپیکٹر نے اس سے لف چند سو روپے کے نوٹ سے ہٹ کر سرکاری فیس کا مطالبہ کیا تو پھر ساری بات سمجھ میں آ گئ کہ ان لوگوں کو پروٹوکول کیوں دیا جا رہا تھا اور وہ نوجوان کیوں بول رہا تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا کوئی انھیں پوچھنے والا ہے؟ کیا کوئی بھی میڈیا یا رپورٹر یہ جرات رکھتا ہے کہ اس مافیا کے خلاف بھی ایک محاذ کھولے؟ یا رپورٹر اور میڈیا خود ان سے اپنا فائدہ نکلوانے کی وجہ سے اپنا منہ بند رکھتے ہیں؟ یہاں پر کوئی چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی بتائے کہ کس کس طریقے سے ٹریفک حکام والے کرپشن کر رہے ہیں۔ کیا ایسے لوگ ٹریفک اصلاحات لائیں گے اور عوام کا چالان کریں گے؟
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے آن لائین لرنر لائسنسوں کی ایپ بنائی کہ عوام کیلئے صہولت ہو۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ آن لائن اپنے کوائف درج کر کے جب پیسے جمع کرواتے ہیں اور فارم نکلوا کر ٹریفک آفس جاتے ہیں تو وہ اس لرنر پر لائسنس کا ٹرائل لینے سے ہی انکار کرتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اس ایپ کے ذریعے سے انگوٹھوں کی نشاندہی (thumb verification) نہیں ہوتی جو کہ شاید ایک آدھ ہفتے تک آجائے گی۔ یہ مورخہ 28۔12۔2023 کی بات ہے۔ اب کل کو اس ایپ کے ذریعے سے لاکھوں لوگوں سے آن لائن پیسے لے کر کل کو کتنے کروڑوں کی کرپشن کی جائے گی یہ اللہ بہتر جانتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر اس ایپ کے ذریعے سے بننے والا لرنر لائسنس اگر ابھی قابل قبول نہیں تو پھر اس ایپ کو آدھا ادھورا بنا کر لوگوں کو بیوقوف کیوں بنایا جا رہا ہے۔ اور اس ذریعے سے پیسے کیوں بٹورے جا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: اے جہاں دیکھ لے کب سے بے گھر ہیں ہم

جسٹس علی ضیاء باجوہ صاحب کے ایک آڈر سے ہزاروں لوگوں کے خلاف پرچے درج کئے گئے۔ مگر کیا کبھی سوچا کہ لوگ لائسنس بنوانے کیوں نہیں جاتے؟ وہ سب اس وجہ سے نہیں جاتے کہ اگر کوئی شخص بغیر رشوت کے لائسنس بنوانے جائے تو اسے کھجل خواری اور بدتہزیبی ملتی ہے۔ کاش کہ اس چیز کو ختم کرنے کیلئے بھی کوئی عدالتی آرڈر ہوتا۔ مگر جج صاحب کو اس بات کا فہم و ادراک تب ہو جب وہ ایک عام شہری کی طرح زندگی کزار رہے ہوں۔ جب ہر چیز پر وی وی آئی پی پروٹوکول ملنے ہیں تو عوام کی حقیقی مسائل کا ادراک کیونکر ممکن ہو؟!!!
بہرحال میرا کام تھا کہ ایک بہت ہی اہم مسئلے کی طرف آپ سب کی نشاندہی کرنا۔ اس کو آگے پھیلانا اور اس بابت آواز بلند کرنا یہ آپ سب کی ذمہ داری ہے۔ آپ کی خاموشی نہ صرف آپ کیلئے مسائل پیدا کرے گی بلکہ آپ کی آنے والی نسل کیلئے بھی مشکلات بپا کرے گی۔ اس مسئلے کو آگے تک پہنچانا آپ سب کی ذمہ داری ہے۔

میاں سہیل شعیب
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ