خبر نہیں کہ یہ سارے ظرف کسی یخ بستہ برف کی مانند اتنے سرد کیوں پڑ گئے؟ معلوم نہیں کہ منجمد احساسات میں مہرو وفا کی تپش اور حدّت کب طوفان اٹھا پائے گی کہ اب تو سِینے بھی سُلگ اٹھے ہیں، اب تو دل بھی تڑپ تڑپ کر ہلکان ہو چکے ہیں، اب تو جسم و جاں پر درد کا پڑاؤ بھی بڑا ہی طویل ہو چکا ہے، کتنی آزردہ شامیں بیت چَلِیں اور کتنی ہی آہوں میں لپٹی صبحوں نے دَم توڑ دیا مگر جہاں بھی دیکھو، جس جگہ کا بھی مشاہدہ کرو، اُمّتِ مسلمہ اپنے سپنے لٹائے بیٹھی ہے۔اپنی آنکھوں کے کٹورے میں اشک لیے یرغمال بنی نڈھال ملّتِ اسلامیہ بے بس ہو چکی۔اب تو ظلم اور کرب نے اپنی حالت اور کیفیت ہی بدل ڈالی ہے۔عالمِ کفر کا مسلّط کردہ ظلم و ستم اپنی جگہ اذیّتوں سے آلودہ سہی مگر اب تو دنیا کے تمام اسلامی ممالک کے سربراہوں اور سات برّاعظموں میں پھیلے مسلمان سیاست دانوں کی بے حسی، یہود و نصاریٰ کے ظلم سے بڑھ کر ظلم کا روپ دھار چکی ہے۔درد و الم کی یہ بدلی ہوئی حالت اور کیفیت، مظلومیت کے حصار میں گرفتار مسلمانوں کو کھائے جا رہی ہے کہ ظلم و سربریت پر اس قدر خاموش مزاجی تاریخ کے قرب و جوار میں بھی کہیں دِکھائی نہیں دیتی۔عہدِ جدید میں مسلم اُمّہ کا یہی سب سے بڑا روگ ہے جس پر جتنا بھی سوگ کیا جائے، کم ہے۔
صہیونیت، مسلمانوں کا خون چوس رہی ہے، اسرائیل کبھی مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کے داخلے پر پابندی عائد کرتا ہے تو کبھی صہیونی انٹیلی جنس ادارہ ”شاباک“ غزہ کی پٹّی سے تعلّق رکھنے والے ڈاکٹرز کو القدس میں خدمات انجام دینے پر قدغن لگا دیتا ہے۔ کبھی بیت المقدس میں اذان پر پابندی لگائی جاتی ہے تو کبھی لاؤڈ سپیکر کے استعمال کو آڑ بنا کر اہلِ فلسطین پر تشدّد کیا جاتا ہے۔کتنی ہی بار اذان دینے پر پابندی لگائی جا چکی۔فلسطینی مسلمان مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو اُن پر تشدّد کیا جاتا ہے۔اذان کے لیے لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر 2700 ڈالر جرمانے کا قانون منظور کیا جا چکا ہے۔گذشتہ جمعے کو ماہِ رمضان کی سعید ساعتوں میں بھی اسرائیلی فوج نے مسجد اقصٰی پر دھاوا بول دیا جس سے 152 فلسطینی زخمی ہو گئے اور 300 کو حراست میں لے لیا گیا، گذشتہ چند روز کے دوران مشرقی یروشلم اور دیگر فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فوج ایک درجن مسلمانوں کو شہید کر چکی ہے، نظیر صدیقی نے ایسے دکھ کا منظر اِس طرح پیش کیا ہے۔
حالات اب تو اتنے دشوار ہو گئے ہیں
ہم نیم شب میں اکثر بیدار ہو گئے ہیں
جعلی اور دو نمبر اسرائیلی ریاست مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگانے کی جسارت کر چکی ہے اور مسجدِ اقصیٰ کے نیچے کھدائی کر کے اسے نقصان پہنچانا بھی اسرائیل کی خوئے بد بن چکی ہے۔فلسطینی وزیرِ خارجہ کے مطابق مشرقی بیت المقدس سے دست بردار نہ ہونے کی اسرائیلی کوشش اور القدس کو یکجا کرنے کے لیے قانون سازی، تنازع فلسطین کے دو ریاستی حل کی کوششوں سے فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے۔
70 سالوں سے صہیونیت، فلسطینی مسلمانوں کی بوٹیاں نوچ رہی ہے۔روح فرسا عذابوں پر مشتمل تاریکیوں کے غول اور اندھیروں کے ٹولے اہلِ فلسطین کے بدنوں پر جگالی کر رہے ہیں۔ ان مسلمانوں کے احساسات ریزوں میں بٹ چکے، ان کے سارے خواب منہدم ہو چکے مگر اس کے باوجود ان کے جذبات میں کم ہمّتی کی آمیزش تک شامل نہ ہوئی۔اُن کے عزم و ہمم میں تھکاوٹ کی ملاوٹ تک نہیں دیکھی گئی۔گولے برساتے ٹینکوں کے سامنے پتّھر اور غلیل لے کر بھی اُن کی جدوجہد میں کوئی کاہلی رخنے نہ ڈال پائی، اگرچہ دنیا بھر کی بے مروّتی اور بے پروائی کا رخ اہلِ فلسطین اور اہلِ کشمیر کی طرف ہے مگر اپنوں کی ہمہ قسم کی بیگانگی کے باوجود حرّیّت کے دیوانوں کی دیوانگی میں غفلت کی آہٹ تک کسی نے نہ سُنی۔
اقتدار کے اکھاڑے میں اپنی اپنی پہلوانی کے جوہر دِکھانے والے، اپنی حکومت بچانے اور دوسری طرف اقتدار چھین لینے کے لیے پورے مُلک میں ہنگامہ برپا کر دینے والے، بدعنوانی پر بدعنوان لوگوں کا واویلا اور دھماچوکڑی، بال کی کھال اتارنے کے ماہر اور مشّاق ان لوگوں کی نظرِ التفات کے کسی ایک گوشے اور کونے میں اہلِ فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کا کرب کیوں جاگزیں نہیں ہوتا؟ اسرائیل کی بدمعاشی سے ساری دنیا آگاہ ہے اور ایک دوسرے پر کرپشن کی غلاظت پھینکنے والوں کی انتہائی حسّاس معاملوں میں ان کے شعور اور ادراک پر جمی کائی بھی ساری دنیا ملاحظہ کر رہی ہے۔اے کاش! جتنا ہنگامہ اب اقتدار پر اپنا تسلّط قائم رکھنے یا کرسی کو چھین لینے کے لیے اٹھایا گیا ہے، اتنا ہی فلسطین اور کشمیر کے مسئلے پر کیا جاتا۔مقتدر لوگوں سے اقتدار چھین لینے کے لیے جس طرح سارے سیاست دان اکھٹے ہوئے، بعینہٖ اسرائیل کے ظلم اور بھارت کے استبداد کا بھانڈا اچھی طرح پھوڑنے کے لیے بھی یہ سارے سیاست دان ایک ہو جاتے۔کیا کشمیر اور فلسطین سے اِن کی مَحبّتوں کے دعوے روکھے اور پھیکے پڑ چکے ہیں؟ ہماری مسلسل بے رخی اور بے اعتنائی سے کہیں فلسطین اور کشمیر کے لوگ ہم سے مایوس ہی نہ ہو جائیں۔حبیب جالب نے فلسطین پر ایک بہت دل گداز نظم لکھی ہے، جس کے چند مصرعے ہیں۔
قاتلو، رہزنو! یہ زمیں چھوڑ دو
ہم کو لڑنا ہے جب تک کہ دَم میں ہے دَم
اے جہاں دیکھ لے کب سے بے گھر ہیں ہم
اب نکل آئے ہیں لے کے اپنا عَلَم