ناجائز تجاوزات:- مَیں نے ایک شاعرہ کی نظم پڑھی جس کا عنوان تھا ” تعلق کی ناجائز تجاوزات “ مقررہ حد سے گزرنے کی حالت اور کیفیت کو ” تجاوز کرنا “ کہتے ہیں، تجاوز یا تجاوزات ہوتی ہی ناجائز ہیں، اس لیے لفظ ” تجاوزات “ سے قبل ” ناجائز “ کا اضافہ فضول ہے۔ تجاوز لفظ پر میر تقی میر کے دو اشعار سے لطف اٹھا لیجیے!
جگر سوزاں و دل بریاں برہنہ پا و سر قرباں
تجاوز کیا کروں اس سے کہ ان ہی کا ہوں وابستہ
تھا جگر میں جب تلک قطرہ ہی تھا خوں کا سرشک
اب جو آنکھوں سے تجاوز کر چلا طوفاں ہُوا
بے فضول:- ” فُضُول “ کا مطلب ہے ” بے کار، زائد، بے فائدہ اور فالتو “ اس سے پہلے ” بے “ لگانا اتنا فضول ہے کہ اس کے معانی یکسر بدل جاتے ہیں یعنی جو چیز فضول نہ ہو اسے بے فضول کہا جانا چاہیے، ندیم گلانی کا شعر ہے:-
تُو سمجھتا ہے گر فضول مجھے
کر کے ہمّت، ذرا سا بھول مجھے
اظہر علی نے بھی بہت عمدہ شعر کہا ہے:-
سب باتیں لا حاصل ٹھہریں سارے ذکر فضول گئے
یاد رہا اک نام تمھارا باقی سب کچھ بھول گئے
بمعہ:-ایک مضمون میں جملہ لکھا تھا ” میں بمعہ اہل و عیال کراچی گیا “ دراصل درست لفظ ” مع “ ہے، یہ عربی زبان کالفظ ہے ، اس کے معنی ہیں’’ کے ساتھ ، کے سمیت “ وغیرہ۔ کچھ لوگ اس میں ’’ ہ ‘‘ کا اضافہ کرکے ’’ معہ ‘‘ کر دیتے ہیں، جس سے معنی تبدیل ہو کر ” اس کے ساتھ “ ہو جاتا ہے۔کچھ لوگ مزید ستم یہ کرتے ہیں کہ اس کے شروع میں ’’ ب ‘‘ کا بھی اضافہ کر کے ” بمعہ ‘‘ کر دیتے ہیں، یہ دونوں املا غلط ہیں۔ اس میں ’’ ب ‘‘ غیر ضروری ہے۔ ” مع “ لکھنا کافی ہے، مثلاً ” مع اہل و عیال، مع الخیر، مع الاکرام وغیرہ، مع سے ایک لفظ ” معاً “ بھی ہے۔ اس کے لفظی معنی ہیں ” ایک ساتھ، ایک ہی وقت میں “ مع ہی سے ” معیّت “ کا لفظ بھی بنا ہے جو اردو میں مستعمل ہے، اس کے معنی ہیں ” ساتھ یا ہمراہ ہونے کی حالت یا کیفیت “ معیّت میں میم پر زبر اور ’’ ی ‘‘ پر زبر اور تشدید ہے۔
جناب اور صاحب:- جناب کا مطلب ” صاحب “ اور صاحب کا معنی ” جناب “ ہے، لفظ ’’ جناب ‘‘ کے عربی اور اردو میں بہت سے معنی ہیں مثلاً گوشہ، کنارہ، جانب، صحن ، درگاہ، بارگاہ، آستانہ وغیرہ۔ مرزا غالب کہتے ہیں:-
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں
مرزا غالب ہی نے ” صاحب “ کو یوں استعمال کیا ہے:-
آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
میر تقی میرؔ بھی یوں کہتے ہیں:-
پھر بھی کرتے ہیں میرؔ صاحب عشق
ہیں جواں اختیار رکھتے ہیں

مزید پڑھیں: اشعار کی صحت

جناب اور صاحب دونوں میں سے ایک ہی کو استعمال کرنا چاہیے مثلاً ” جناب ہیڈ ماسٹر صاحب “ لکھنا غلط ہے ” جناب ہیڈ ماسٹر “ یا ” ہیڈ ماسٹر صاحب “ لکھنا چاہیے۔
اعلانیہ:- اِس کے معانی ’’ آشکارا، ظاہر، کُھلم کُھلا ‘‘ اور ’’ سب کے سامنے ‘‘ ہیں۔درست لفظ ” اعلانیہ“ نہیں بلکہ ” علانیہ “ ہے، اللہ تعالیٰ نے سورہ البقرہ کی آیت نمبر 274 میں بھی علانیہ ہی استعمال کیا ہے۔
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اگرچہ قرآن مجید کی آیت کے بعد مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں لیکن قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے عرض ہے کہ مولوی سید احمد دہلوی کی لغت ’’ فرہنگِ آصفیہ ‘‘ اور مولوی نور الحسن نیّر کی ’’ نور اللغات ‘‘ کے مطابق بھی اس لفظ کا دُرست املا ’’ علانیہ ‘‘ ہے۔
لاش اور نعش:- دونوں کے معانی ایک جیسے ہیں، اساتذہ کے ہاں دونوں مستعمل ہیں:- مثلآ مرزا غالب کہتے ہیں:-
یہ لاشِ بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
مرزا غالب ہی نے نعش بھی استعمال کیا ہے:-
اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غم ناک ہو گئے
لفظ نعش کو صفی لکھنوی نے یوں استعمال کیا ہے:-
مری نعش کے سرھانے وہ کھڑے یہ کَہہ رہے ہیں
اسے نیند یوں نہ آتی اگر انتظار ہوتا
مُردہ انسان کے لیے ” لاش “ اور ” نعش “ دونوں مستعمل ہیں البتہ مُردہ جانور کے لیے ” نعش “ کا استعمال میری نظروں سے نہیں گزرا
شومئی قسمت:- یہ املا غلط ہے، اس کے معانی ہیں ” بد نصیب، بد بخت، منحوس “ درست لفظ
شُومیِ قسمت “ ہے، شومی کے ” ی ” کے نیچے زیر ہے، اسے غلط طور پر ” شومئی قسمت “ لکھا جاتا ہے، شومیِ قسمت کو اس طرح بولیں گے ” شُومی اے قسمت ”
استفادہ حاصل کرنا:- استفادہ میں ” حاصل “ کا مفہوم موجود ہے، اس لیے ” استفادہ کرنا “ لکھنا چاہیے, احمد خیال کا شعر دیکھیے:-
مہکتے پھول ستارے دمکتا چاند دھنک
ترے جمال سے کتنوں نے استفادہ کیا
سالم سلیم نے بھی استفادہ کو یوں استعمال کیا ہے:-
ہَوا سے استفادہ کر لیا ہے
چراغوں کو لبادہ کر لیا ہے
بَیڑا اٹھانا:- اکثر احباب اسے ” بے ڑا اٹھانا “ ہی پڑھتے ہیں، جب کہ درست تلفّظ ” بِیڑا اٹھانا “ ہے، یعنی ” بی ڑا اٹھانا “ ماضی میں جب بادشاہ کسی اَہَم مہم کے لیے کسی کو ذمے داری سونپنا چاہتے تھے تو اپنے سپاہ سالاروں کے سامنے پان کے بِیڑے رکھ دیا کرتے تھے جو سپاہ سالار آگے بڑھ کر بِیڑا اٹھا لیتا تھا، وہی اس مہم پر روانہ کیا جاتا تھا۔ اسی سے محاورہ بنا بِیڑا اٹھانا یعنی ” بی ڑا اٹھانا “
اٹھرہ:- ایک ٹی وی چینل پر ایک اداکار کَہ رہے تھے کہ ” جب میں اٹھرہ سال کا تھا تب اداکاری شروع کر دی تھی “ اٹھارہ اچھا خاصا لفظ ہے جسے اب کچھ لوگ اٹھرہ کہنے لگے، خدارا! لفظوں کی حرمت کا کچھ تو خیال رکھا کریں، اسے اٹھارہ ہی رہنے دیں۔مرزا غالب نے ایک قصیدے میں کہا ہے:-
سنینِ عیسوی اٹھارہ سو اور اٹھاون
یہ چاہتے ہیں جہاں آفریں سے شام و پگاہ

( انگارے ۔۔۔حیات عبداللہ )