پانچ گناہوں کے پانچ وبال

حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اے مہاجروں کی جماعت! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو گڑے (تو ان کی سزا ضرور ملے گی) اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ (بری چیزیں) تم تک پہنچیں

بے حیائی کا وبال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ، حَتَّى يُعْلِنُوا بِهَا، إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الطَّاعُونُ، وَالْأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوْا

(ابن ماجہ، كِتَابُ الْفِتَنِ،بَابُ الْعُقُوبَاتِ،4019حسن)

جب بھی کسی قوم میں بے حیائی (بدکاری وغیرہ) علانیہ ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے بزرگوں میں نہیں ہوتی تھیں

فحش کے نقصان اور خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ان لوگوں میں بے حیائی پھیلے جو ایمان لائے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
النور : 19

بے حیائی کا وبال اور عذاب ایک روایت میں یوں بیان کیا گیا ہے

عبدالله بن مسعود رضي الله عنہ سے روایت ہے۔

مَا ظَهَرَ فِي قَوْمٍ الرِّبَا وَالزِّنَا إِلَّا أَحَلُّوا بِأَنْفُسِهِمْ عِقَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

کسی قوم میں سود خوری یا زنا کاری ظاہر ہو جائے تو وہ قوم اپنے آپ کو اللہ کے عذاب میں دھکیل لیتی ہے
(مسند احمد/٣٨٠٩)

آج اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے اور یہ چیز دشمنوں کے خوف، قتل و غارت، بدامنی، وباؤں اور نئی سے نئی بیماریوں کے عذابِ الیم کی صورت میں سب کے سامنے ہے اور قیامت کا عذابِ الیم ابھی باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

ماپ تول میں کمی بیشی کا وبال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ، إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ، وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ

(ابن ماجہ، كِتَابُ الْفِتَنِ،بَابُ الْعُقُوبَاتِ،4019حسن)

جب وہ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، ان کو قحط سالی، روزگار کی تنگی اور بادشاہ کے ظلم کے ذریعے سے سزا دی جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ

اور انصاف کے ساتھ تول سیدھا رکھو اور ترازو میں کمی مت کرو۔
الرحمن : 9

ماپ تول میں کمی بیشی کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ

بڑی ہلاکت ہے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ۔
المطففين : 1

الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ

وہ لوگ کہ جب لوگوں سے ماپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں۔
المطففين : 2

وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ

اور جب انھیں ماپ کر، یا انھیں تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔
المطففين : 3

ماپ تول کے علاوہ لین دین کے جتنے بھی دیگر پیمانے ہیں ان میں کمی بھی ’’اَلتَّطْفِيْفُ‘‘ ہے۔

شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ لوگ ماپ تو میں کمی بیشی کیا کرتے تھے:

وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِنِّي أَرَاكُمْ بِخَيْرٍ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُحِيطٍ

اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا)۔ اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں اور ماپ اور تول کم نہ کرو، بے شک میں تمھیں اچھی حالت میں دیکھتا ہوں اور بے شک میں تم پر ایک گھیر لینے والے دن کے عذاب سے ڈرتاہوں۔
هود : 84

وَيَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ

اور اے میری قوم! ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد کر تے ہوئے دنگا نہ مچاؤ۔
هود : 85

زکوٰۃ ادا نہ کرنے کا وبال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَلَمْ يَمْنَعُوا زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ، إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوا

(ابن ماجہ، كِتَابُ الْفِتَنِ،بَابُ الْعُقُوبَاتِ،4019حسن)

جب وہ اپنے مالوں کی زکاۃ دینا بند کرتے ہیں تو ان سے آسمان کی بارش روک لی جاتی ہے۔ اگر جانور نہ ہوں تو انہیں کبھی بارش نہ ملے۔

زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کی سزا قرآن میں یوں بیان کی گئی ہے
فرمایا:

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

اور جو لوگ سونا اور چاندی خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، تو انھیں دردناک عذاب کی خوش خبری دے دے۔

يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ

جس دن اسے جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوئوں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا۔ یہ ہے جو تم نے اپنے لیے خزانہ بنایا تھا، سو چکھو جو تم خزانہ بنایا کرتے تھے۔
التوبة : 35

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کوئی بھی شخص جو سونے یا چاندی کا مالک ہو، اس سے اس کا حق ادا نہ کرے، اس کے لیے قیامت کے دن آگ سے (اس سونے یا چاندی کی) سلاخیں یا تختے بنائے جائیں گے، پھر جہنم کی آگ میں انھیں خوب گرم کرکے اس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ کو داغا جائے گا، جب وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے تو انھیں دوبارہ گرم کر لیا جائے گا، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہو گی، یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے، تو وہ جنت یا آگ کی طرف اپنا راستہ دیکھے گا۔‘‘ (لمبی حدیث ہے جس میں اونٹوں، بکریوں اور گھوڑوں وغیرہ کا حق ادا نہ کرنے والوں کی وعید بھی مذکور ہے)
[ مسلم، الزکاۃ، باب إثم مانع الزکاۃ : 987/24 ]

اللہ اور اسکے رسول سے عہد توڑنے کا وبال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَلَمْ يَنْقُضُوا عَهْدَ اللَّهِ، وَعَهْدَ رَسُولِهِ، إِلَّا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ، فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ

(ابن ماجہ، كِتَابُ الْفِتَنِ،بَابُ الْعُقُوبَاتِ،4019حسن)

جب وہ اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑتے ہیں تو ان پر دوسری قوموں میں سے دشمن مسلط کردیے جاتے ہیں، وہ ان سے وہ کچھ چھین لیتے ہیں جو ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

وَكَانَ عَهْدُ اللَّهِ مَسْئُولًا

اور اللہ کا عہد ہمیشہ پوچھا جانے والا ہے۔الاحزاب : 15

اللہ کا عہد توڑنے والے نقصان اٹھاتے ہیں
فرمایا:

الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو، اسے پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اس چیز کو قطع کرتے ہیں جس کے متعلق اللہ نے حکم دیا کہ اسے ملایا جائے اور زمین میں فساد کرتے ہیں، یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔
البقرة : 27

اللہ کا عہد توڑنے والے لعنت کے مستحق بنتے ہیں

وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ

اور وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو اسے پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اس چیز کو کاٹ دیتے ہیں جس کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ اسے ملایا جائے اور زمین میں فساد کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے لیے لعنت ہے اور انھی کے لیے اس گھر کی خرابی ہے۔
الرعد : 25

کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنے کا وبال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، وَيَتَخَيَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ، إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ
(ابن ماجہ، كِتَابُ الْفِتَنِ،بَابُ الْعُقُوبَاتِ،4019حسن)

جب بھی ان کے امام (سردار اور لیڈر) اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور جو اللہ نے اتارا ہے اسے اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان میں آپس کی لڑائی ڈال دیتا ہے۔

کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والوں کو کبھی کافر کہا گیا ہے۔

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ

اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں
المائده : 44

اور کبھی ظالم کہا گیا ہے

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں
المائده : 45

اور کبھی فاسق کہا گیا ہے

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ نافرمان ہیں۔
المائده : 47

گناہوں میں ڈوبا دل قرآن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا

جس طرح بارش سے صرف ذرخیز زمین ہی فائدہ اٹھاتی ہے، بنجر یا کچرے کا ڈھیر بنی زمین بارش کے فائدے سے محروم ہی رہتی ہے ایسے ہی گناہوں میں ڈوبا ہوا دل قرآن کی ھدائت سے محروم رہتا ہے

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں

فإذا كان ورقه لا يمسه إلا المطهرون؛
فمعانيه لا يهتدي بها إلا القلوب الطاهرة.

جب قرآن کے اوراق کی یہ حالت ہے کہ انہیں صرف طاہر (فرشتے) کی چھوتے ہیں تو پھر اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی ھدائت بھی وہی دل پاتے ہیں جو پاک صاف ہوتے ہیں
(شرح حديث النزول ص428)

اور آپ نے فرمایا : ‏

فإن نسيان القرآن من الذنوب .

ابن تيمية رحمه الله / الفتاوى [13/423]
قرآن کا بھول جانا گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے

انسانی حافظے پر گناہوں کا اثر

علی بن خشرم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

رأيت وكيع بن الجراح ولم يكن بيده كتاب ، وكان يحفظ مالا نحفظ فعجبت من ذلك فسألته

میں نے وکیع بن جراح رحمہ اللہ کے ہاتھ میں کبھی بھی کتاب نہیں دیکھی لیکن انہیں وہ بہت کچھ یاد تھا جو ہمیں یاد نہیں تھا میں نے تعجب سے اس کی وجہ پوچھی

وقلت :

يا وكيع لا تحمل كتاباً ولا تكتب سواداً في بياض ، وتحفظ أكثر مما نحفظ .

میں نے کہا، اے وکیع آپ کتاب پکڑتے ہیں اور نہ ہی لکھتے ہیں لیکن ہم سے زیادہ معلومات یاد رکھتے ہیں (اس کی وجہ کیا ہے)

فقال وكيع وقد أسّر في أُذني : ياعلي !
إن دللتك على دواء النسيان أتعمل به.

وکیع نے میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا
اگر میں تجھے بھولنے کی دواء بتا دوں تو کیا آپ اس پر عمل کریں گے

قلت إي والله:
میں نے کہا اللہ کی قسم ضرور

قال ترك المعاصي فوالله ما رأيت أنفع للحفظ من ترك المعاصي .

تو انہوں نے کہا “گناہ چھوڑ دو ”
کیونکہ اللہ کی قسم میں حفظ کے لیے گناہ چھوڑنے سے زیادہ کوئی نفع بخش چیز دیکھی ہی نہیں

[ ﺳﻴﺮ ﺃﻋﻼ‌ﻡ ﺍﻟﻨﺒﻼﺀ ٦ /٣٨٤ ]

امام شافعی اور امام وکیع رحمہما اللہ کا واقعہ

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

شَكَوتُ إِلى وَكيعٍ سوءَ حِفظي فَأَرشَدَني إِلى تَركِ المَعاصي
وَأَخبَرَني بِأَنَّ العِلمَ نورٌ
وَنورُ اللَهِ لا يُهدى لِعاصي

میں نے وکیع کے پاس حافظہ کی کمزوری کا شکوہ کیا تو انہوں نے میری رہنمائی فرماتے ہوئے کہا کہ گناہ چھوڑ دو
اور مجھے بتایا کہ علم، اللہ کا نور ہوتا ہے اور اللہ کا نور کبھی بھی گناہ گاروں کو عطا نہیں کیا جاتا.

 

عمران محمدی