حفظِ قرآن سے علم کی ابتداء

محدثین کے ہاں علم کا آغاز قرآن مجید کے حفظ سے کیا جاتا تھا، بلکہ علماے حدیث کے ہاں قرآن مجید کے حفظ کے بغیر عالم یا محدث بننے کا تصور نہیں تھا، طالب علم سب سے پہلے قرآن مجید حفظ کرتا پھر مجلسِ حدیث میں جا کر احادیث کی سماعت کرتا ۔ محدثین اپنے حلقہء درس میں غیر حافظ طالب علم یا کچے حفظ والے کو بیٹھنے ہی نہیں دیتے تھے ۔
ولید بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ ہم امام اوزاعی رحمہ اللہ کے پاس (درسِ حدیث کے لیے) بیٹھتے تھے، جب وہ ہمارے درمیان کسی نئے طالب علم کو دیکھتے تو پوچھتے : اے بچے! آپ نے قرآن پڑھ لیا ہے؟ اگر وہ اثبات میں جواب دیتا، تو فرماتے : چلو یہ آیت پڑھو

﴿يوصيكم الله فى أولادكم﴾

اور اگر نفی میں جواب دیتا تو فرماتے : ’’جاؤ! علم سیکھنے سے قبل قرآن سیکھ کر آؤ۔‘‘ (الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطیب : ٨٠ وسنده حسن)
اسی طرح ابو ہشام رفاعی بیان کرتے ہیں کہ ’’یحیی بن یمان رحمہ اللہ کے پاس جب کوئی نوخیز بچہ آتا تو اس سے سورہ الأعراف اور سورہ یوسف کی سترویں آیت سے سنتے اور سورہ الحدید شروع سے سنتے۔ اگر وہ سنا دیتا تو اسے حدیث بیان کرتے وگرنہ اسے حدیث نہیں پڑھاتے تھے۔‘‘ (أيضاً : ٨١ وسنده صحیح)
متاخرین میں جب فقہاء نے تساہل برتنا شروع کیا فقہ کے طلباء کے لیے مکمل حفظ کی بجائے صرف آیاتِ احکام اَزبر کرنے کی رخصت دی تو یہ تساہل آہستہ آہستہ حدیث کے طلباء میں بھی دَر آیا، یہاں تک کہ آیاتِ احکام تو دور کی بات چند مشہور سورتوں پر ہی گزارا چلنے لگا، بالخصوص بلادِ عجم میں اس معاملے پر بہت سستی ہوئی ہے، یہ یقیناً بڑے خسارے کی بات ہے، دینی علوم کے طلباء کے لیے سب سے پہلا مرحلہ قرآن مجید کے حفظ کا ہونا چاہیے، یا کم از کم ایک اچھا خاصہ حصہ حفظ کروانا چاہیے، جس کی کم از کم مقدار دس پارے ہو، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«مَنْ أَخَذَ السَّبْعَ الْأُوَلَ فَهُوَ حَبْرٌ».

’’جو پہلی سات سورتیں یاد کر لے وہ بہت بڑا عالم ہے۔‘‘
(مسند احمد، طبع الرسالة : ٤٠/ ٥٠١، وصححه الحاكم وحسنه محققو المسند والألباني)
“”سبع اُول” یا سبع طِوال/ طُوَل” سے مراد سورہ البقرہ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف اور سورہ التوبہ ہیں۔ نیز جب سورہ توبہ شامل کی جائے تو سورہ الانفال بھی اس میں داخل ہے۔ (غريب القرآن لابن قتيبة، ص : ٣٥)
اور ایک قول کے مطابق سورہ التوبہ کی جگہ سورہ یونس ہے۔ (فضائل القرآن لابن الضريس : ١٨١، السنن الصغیر للبيهقي : ١/ ٣٤١)
بہر حال یہ کم و بیش دس پارے بنتے ہیں، جو کم از کم ایک طالب علم اور عالم دین کو حفظ ہونے چاہیے۔
علامہ عبد الرؤوف مناوی رحمہ اللہ (١٠٣١هـ) فرماتے ہیں :
’’یعنی جس نے ان سورتوں کو حفظ کر لیا اور ان کی تلاوت کی عادت بنا لی تو یہ بہت بڑی خیر ہے۔‘‘ (فیض القدير : ٦/ ٤١)

حافظ محمد طاھر

یہ بھی پڑھیں: رمضان المبارک کی مبارک باد دینے کا حکم