رمضان المبارک کی مبارک باد دینے کا حکم

یقینا رحمتوں کے نزول، خیر و برکات سمیٹنے اور نیکیاں کمانے کے موسم رمضان المبارک کی آمد مسلمان کے لیے باعثِ مسرت وشادمانی ہے اور چونکہ عرفِ عام کی عادات میں شامل ہے کہ نعمت کے حصول یا خوشی کے مواقع پر لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں، اور معلوم شد کہ عادات میں بنیاد یہی ہے کہ جب تک کسی شرعی حکم کی مخالفت نہ ہو تو یہ جائز ہوتی ہیں اسی عمومی اصول کے تحت ہی دنیاوی مناسبات پر بالعموم اور دینی مناسبات پر بالخصوص مبارک باد دینا سلف صالحین سے منقول ہے جیسا کہ عید کے موقع پر تقبل اللہ منا ومنكم کے الفاظ منقول ہیں، اسی عمومی قاعدے کے تحت رمضان کی آمد پر مبارک باد اور باہمی دعاؤں اور نیک تمناؤں کا تبادلہ جائز و درست ٹھہرتا ہے، اگرچہ بعض علماء نے جن خاص وصریح احادیث سے استدلال کیا ہے وہ صحت وضعف کے اعتبار سے محلِ خلاف ہیں، لیکن عمومی قاعدہ اپنی اصل پر برقرار رہتا ہے، ذیل میں اسی کے متعلق بعض اہل علم کی آراء نقل کی جاتی ہیں.
✿ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کو (رمضان کی) خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا : تمہارے پاس بابرکت مہینہ آ گیا ہے… إلخ.
(مسند احمد : 2/ 385 ح : 8979 اس کی سند منقطع ہے.)
⇚ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (795ھ) فرماتے ہیں :
“لوگوں کی آپس میں رمضان پر مبارک باد دینے کی بنیادی دلیل یہ حدیث ہے.”
(لطائف المعارف، ص : 148)
⇚علامہ جلال الدین سیوطی (911ھ) علیہ الرحمہ نے ابن رجب رحمہ اللہ کی یہ بات اپنے رسالے “وصول الأماني بأصول التهاني” میں استشہادا ذکر کی ہے.
(الحاوی الفتاوى : 90/1، طوق الحمامة للسيوطي، ص: 11)
⇚ علامہ ملا علی قاری حنفی علیہ الرحمہ (1014ھ) فرماتے ہیں :
“مبارک مہینوں کے آغاز میں معروف مبارک باد دینے پر یہ حدیث بنیادی دلیل ہے.”
(مرقاة المفاتيح : 1365/4)
⇚ امام ابن بطہ رحمہ اللہ (387ھ) نے حج وعمرہ اور عیدین وغیرہ کی مناسبت سے ایک دوسرے کو مبارک باد اور دعا دینے پر مسلمانوں کا سلف وخلف میں اجماع نقل کیا ہے.
(الابانة الكبرى : 2/ 871)
⇚امام ابن بطہ رحمہ اللہ کا یہ اجماع نقل کرنا عیدین کے علاوہ دیگر خوشی کے مواقع پر بھی مبارک باد دینے کی قطعی دلیل ہے.
(تطريز جزء فى التهاني فى الأعياد وغيرها لابن حجر؛ للشيخ العصيمي مفرغة، ص: 35)
⇚ معروف امام عبد العظیم منذری رحمہ اللہ (656ھ) اپنے استاد امام ابو الحسن علی بن مفضل المقدسی رحمہ اللہ (611ھ) سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے ماہ وسال کے آغاز میں مبارک باد کے متعلق سوال کیا گیا کہ یہ بدعت ہے یا نہیں تو انہوں نے فرمایا : “لوگ ہمیشہ سے اس بارے میں دو رائے رکھتے ہیں جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مباح و جائز ہے، نہ تو سنت ہے اور نہ ہی بدعت.”
(جزء فى التهاني فى الأعياد وغيرها لابن حجر، ص : 26)
⇚ حافظ ابو الفضل ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں :
“نعمت کے حصول اور مصیبت کے ٹل جانے پر بالعموم مبارک باد کے لیے سجدہ شکر سے بھی استدلال کیا جاتا ہے.”
(جزء فی التهنئة في الأعياد وغيرها، ص : 46)
⇚ علامہ ابو العباس ابن حجر ہیتمی علیہ الرحمہ (974ھ) فرماتے ہیں :
“عید اور ماہ کے آغاز میں مبارک باد سنت ہے جیسا کہ ہمارے بعض ائمہ نے ذکر کیا ہے.”
(الفتاوی الفقہیہ الکبری : 245/4)
⇚ شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ (1421ھ) فرماتے ہیں :
“ماہ رمضان کی مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں، یہ لوگوں میں عادت معروف ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اس مناسبت پر دعا دیتے ہیں، بعض اہلِ علم نے ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کو اس کی مبارک دیتے ہوئے فرماتے : “تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آگیا ہے.” باقی یہ الفاظ جو لوگ مبارک دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ ہر سال بخیر و سلامتی رہیں، مجھے جو سمجھ آتی ہے کہ لوگ اس سے دعا ہی مراد لیتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو ہمیشہ خیریت سے رکھے لیکن اگر لوگ اس سے بھی زیادہ خاص اور اچھے الفاظ کہیں تو زیادہ بہتر ہے مثلا یوں کہہ لیں : اللہ تعالی آپ کو اس مہینے میں برکت دے اور اپنی اطاعت کرنے کی اعانت ومدد فرمائے. یا اس سے ملتے جلتے کوئی دوسرے الفاظ کہہ لیں.”
(آڈیو، جلسات رمضانیہ، مفرغة : 11/1)
⇚ شیخ فرماتے ہیں :
“ماہ رمضان کی آمد کی مبارک باد دینے میں کوئی حرج نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کو اس مہینے کی آمد کی یوں خوش خبری دیتے : عظیم اور مبارک مہینہ تم پر سایہ فگن ہو چکا ہے.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ سے اس ماہ کے فضائل کا ذکر فرماتے اور اسے غنیمت جاننے کا حکم دیتے.”
(اللقاء الشھری : 70/ 29)
⇚ اسی طرح شیخ رحمہ اللہ کو سائل نے خط بھیجا جس کے آغاز میں رمضان کی مبارکباد دی گئی تھی تو شیخ نے جوابا اسے دعا دی.
(مجموع فتاوی ورسائل العثيمين : 107/19 ، 19/ 380)
⇚ شیخ ابن باز رحمہ اللہ (1420ھ) سے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا :
“اس میں کوئی حرج نہیں، میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کیوں کہ یہ بڑا معزز مہینہ ہے جس میں خیر عظیم ہے تو اس کی مبارک باد دینے میں بالکل اسی طرح کوئی حرج نہیں جس طرح کہ اولاد ، اچھی رہائش اور سفر سے بخیر و عافیت لوٹنے پر مبارک باد دی جاتی ہے.”
مزید سوال کیا گیا کہ کیا اس طرح مبارک باد کے لیے کوئی خاص الفاظ بھی ہیں؟؟؟
تو شیخ نے فرمایا :
“یوں کہے : اللہ تمہارے لیے اس ماہ کو بابرکت بنائے یا تمہیں اس مہینہ کی آمد کی مبارک ہو یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کہہ لے.”
پوچھا گیا : یوں کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو یہ مہینہ مبارک ہو؟؟؟
فرمایا : “جی سب ٹھیک ہے جیسے بھی کہہ لیں.”
(فتاوی نور علی الدرب : 16/ )
⇚ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کو ایک پاکستانی سائل نے مسئلہ دریافت کرنے کے لیے خط بھیجا، آغاز میں رمضان کی مبارک باد دی تو شیخ رحمہ اللہ نے انہیں جوابا دعا دی.
(مجموع الفتاوی لابن باز : 98/15)
⇚ سعودی دائمی فتوی کمیٹی سے اس متعلق سوال ہوا تو انہوں جوابا فرمایا :
“آغازِ رمضان پر مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں ہے.”
(فتاوی اللجنہ الدائمہ-٢ : 9/ )
⇚شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
“ماہ رمضان کے شروع ہونے کی مبارک باد دینے میں کوئی حرج نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کو اس مہینے کی آمد کی خوش خبری دیتے اور انہیں اس میں بڑھ چڑھ کر نیکیاں کرنے کی ترغیب دیتے، اللہ تعالی فرماتے ہیں :
کہہ دیں کہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت ہی سے ہے لہذا اسی کے ساتھ پھر لازم ہے کہ وہ خوش ہوں۔ جو وہ جمع کرتے ہیں یہ اس سے بہتر ہے. (سورہ يونس: 58)
اس مہینے کی مبارک باد دینا اور اس کے آنے پر خوش ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انسان اس میں خیر و بھلائی کی رغبت رکھتا ہے، سلف بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کرتے ہوئے، ایک دوسرے کو ماہ رمضان کی آمد پر مبارکباد دیتے.”
(المنتقی من فتاوی الشيخ صالح الفوزان : 123/3)
⇚ شیخ عبد العزيز آل شیخ فرماتے ہیں :
“جب یہ کریم مہینہ داخل ہو تو اس کے آغاز پر مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں. ”
(رسائل و فتاوی عبد العزيز آل الشیخ، ص : 103)
⇚ شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ماہ رمضان کے آغاز پر مبارکباد دینے کا کیا حکم ہے؟ تو شیخ نے فرمایا :
“میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا، یہ عید کی مبارک باد کی طرح ہی ہے اور عید پر جب صحابہ ایک دوسرے کو ملتے تو تقبل اللہ منا ومنكم کہا کرتے، اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ رمضان ایک عظیم موقع ہوتا ہے اس پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرنا چاہیے اس کو غنیمت جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہ آخرت کمانے کے دنوں میں سے دن ہیں لوگ اس موقع پر خوش ہوتے اور ایک دوسرے کے لیے دعا کرتے ہیں، یوں ہونا چاہیے کہ مبارک باد بھی دعا کے ساتھ دی جائے، سب ایک دوسرے کے لیے دعا کریں کہ انہیں صیام وقیام کی توفیق ملے.”
(شرح سنن ابو داود : 33/ 549 بحوالہ شاملہ)
⇚ شیخ صالح بن عبد اللہ العصیمی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
“مختار قول یہی ہے کہ رمضان کی خوش خبری دینا مستحب یا مباح ہے اسے بدعت کہنا بہت دور کی بات ہے.”
(شرح فضل صيام رمضان وقيامه لابن باز ؛ مفرغة، ص : 29)
نیز فرماتے ہیں :
“رمضان کی مبارک باد والی احادیث کو ضعیف کہنے والے علماء بھی اس کی خوش خبری دینے سے منع نہیں کرتے کیوں کہ خوش خبری کا تعلق بھی مبارک باد سے ہے اور مبارک باد دینے میں اصل و بنیاد مباح وجواز ہی ہے.”
(ایضا)
اسی طرح شیخ ایک جگہ فرماتے ہیں :
“مبارک باد کے متعلق اصل کلی قاعدہ جواز کا ہے.”
(تطریز جزء فى التهنئة فى الأعياد وغيرها؛ مفرغة، ص : 35)
⇚شیخ عبد الکریم الخضیر حفظہ اللہ، ماہ رمضان کی مبارکباد کے متعلق فرماتے ہیں :
“خوشی پر مبارک باد دینے کی شریعت میں اصل موجود ہے اور یہ مبارک باد کسی بھی الفاظ کے ساتھ دی جا سکتی ہے جن میں کوئی ممانعت نہ ہو.”
(آڈیو، شرح زاد المستقنع؛ مفرغة : 2/ 1)
⇚ بعض اہلِ ادب و لغت نے رمضان کی مبارک باد کے لیے مختلف ادبی وفصیح الفاظ وجملے بیان کیے ہیں مثلا دیکھیے :
(1) ترتيب الامالي الخميسية للشجري (2/ 35 وسندہ حسن)
(2)علامہ ابو منصور عبد الملک ثعالبی (429ھ) کی سحر البلاغة وسر البراعة (ص : 101)
(3) علامہ احمد قلشقندی (821ھ) کی صبح الاعشی فی صنعة الإنشاء (9/ 42)
(4) علامہ ابو منصور ثعالبی (876ھ) کی لباب الآداب (ص : 55)
(5) ابو اسحاق القیروانی (453ھ) کی زهر الآداب وثمر الألباب (2/ 618) وغیرہ
وما توفيقي إلا بالله عليه توكلت وإليه أنيب.

حافظ محمد طاھر

یہ بھی پڑھیں: اپنے روزے کی حفاظت کریں