ہنسی و مذاق کے شرعی آداب

اسلام ایک کامل ومکمل دین ہے۔ جو دنیائے انسانیت کے لئے خالق کائنات کاایک حسین تحفہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنفس نفیس اس کے احکام و قوانین وضع فرمائے ہیں۔ اور یہ احکام و قوانین عین انسانی فطرت سے ہم آہنگ اور موافق ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ خالق انسانیت ہے۔ اسی نے انسانی فطرت اور مزاج تخلیق فرمایا ہے۔ لہٰذا اس سے زیادہ انسان کا مزاج شناش اور فطرت شناش اور کون ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلامی احکام اور قوانین میں انسانی مزاج اور فطرت کی رعایت نظر آتی ہے۔

مزاح اور خوش طبعی

مزاح اور خوش طبعی یا مذاق اور دل لگی ایک ایسی پرکیف اور سرور آگیں کیفیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے تقریباً ہر انسان میں ودیعت فرمائی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ مادہ کسی میں کم تو کسی میں کوٹ کوٹ کر رکھا ہے سرور و انبساط کے موقع پر انسان سے بکثرت اس کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک عظیم نعمتِ خداوندی ہے۔ جو دلوں کی پسمردگی کو دور کرکے ان کو سرور و انبساط کی کیفیت سے ہمکنار کرتا ہے۔ عقل وفہم کے تعب و تھکان کو زائل کرکے نشاط اور چشتی سے معمور کرتا ہے۔ جسمانی اضمحلال کو ختم کرکے فرحت وراحت سے آشنا کرتا ہے۔ روحانی آلودگی کو مٹاکر آسودگی کی نعمت سے روشناس کراتا ہے۔

اسلام صرف عقائد میں میانہ روی یا اعتدال کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ زندگی کے تمام شعبہ جات میں میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے ۔اسلام نے قطعا ہنسی مزاق یا خوش طبعی کرنے سے منع نہیں کیا بلکہ اسلام نے تو جائز قرار دیا ہے ہے نہ صرف جائز بلکہ اسلام نے تو اس کی تعلیم دی ہے ۔پر ساتھ ہی ساتھ کچھ ضوابط و قواعد متعین کیے ہیں ۔
اگر ان کا لحاظ رکھتے ہوئے ہم مذاق کریں گے تو ہماری مذاق عین سنت کے مطابق ہوگی اور اس کا ثواب بھی ملے گا ۔مذاق کے اندر اگر ان کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا تو اس کا مذاق اس کی ذات کے لئے مذاق بن جائے گا اور اس کی ہلاکت اور بربادی کا سبب بن جائے گا ۔

(1):سب سے پہلی بات کہ وہ مذاق دین اسلام کے بارے میں نہ ہو: ۔یعنی ایسا مذاق نہ ہو جس سے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا مذاق اڑایا جائے ۔
جیسے ہمارے معاشرے میں اس شخص کا مذاق اڑایا جاتا ہے جس کے پانچے سنت کے مطابق ٹخنوں سے اوپر ہوں ، اور اس شخص کا بھی مذاق اڑایا جاتا ہے جس نے سنت کی پیروی کرتے ہوئے داڑھی مبارک رکھی ہو ۔
اسی طرح اللہ رب العزت کی آیات کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔معاملات یہاں تک نہیں بلکہ لوگوں کا آج کل حال یہ ہے جنت اور جہنم کے بارے میں لطیفے بنا کر سناتے ہیں ۔
یہ مذاق ایک بہت بڑا گناہ ہے جو اس کے کرنے والے کو کفر تک پہنچادیتا ہے اور یہ عمل منافقین کا ہے ۔اور ان لوگوں کا مقصد لوگوں کو دین اسلام سے دور رکھنا ہے ۔
جس طرح منافقین نے جنگ تبوک کے موقع پر مسلمانوں کو دین حنیف پر عمل کرنے سے روکنے کے لیے ایسی باتیں بیان کرنے لگے جن باتوں سے مسلمانوں کی حوصلہ شکنی اور حوصلے پست ہوں ۔ یہ جنگ اہل ایمان کے لیے امتحان تھی کیونکہ اس وقت لگی تھی جب فصلیں تیار ہوچکی تھی ۔ منافقین کی کثیر تعداد نے راہ فرار اختیار کر لی کچھ مجبوراً چل پڑے وہ اپنے ارادوں کے ساتھ مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے لگے ۔
کہنے لگے کیا ہم نے مکہ فتح کرلیا تو ہمارے اندر اتنی جرات آگئی کہ ہم سپر پاور super power سلطنت روم سے لڑنے کے لیے نکلے ہیں ۔بعض نے کہا کہ سلطنت روم تو ایک بڑی سلطنت ہے وہ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے ۔
اللہ تعالیٰ ان منافقین کا اس طرح تذکرہ کیا ہے ۔
وَلَئِنۡ سَاَلۡتَهُمۡ لَيَـقُوۡلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوۡضُ وَنَلۡعَبُ‌ؕ قُلۡ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوۡلِهٖ كُنۡتُمۡ تَسۡتَهۡزِءُوۡنَ
لَا تَعۡتَذِرُوۡا قَدۡ كَفَرۡتُمۡ بَعۡدَ اِيۡمَانِكُمۡ‌ ؕ اِنۡ نَّـعۡفُ عَنۡ طَآئِفَةٍ مِّنۡكُمۡ نُـعَذِّبۡ طَآئِفَةً ۢ بِاَنَّهُمۡ كَانُوۡا مُجۡرِمِيۡنَ . (سورة التوبة :65,66)

اور اگر تم ان سے (اس بارے میں) دریافت کرو تو کہیں گے ہم تو یوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ کہو کیا تم اللہ تعالیٰ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔ اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں تو دوسری جماعت کو سزا بھی دیں گے کیونکہ وہ گناہ کرتے رہے ہیں ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص ایمان لانے کے بعد دین اسلام کا مذاق اڑاتا ہے وہ کافر بن جاتا ہے ۔
(مجموعہ الفتاوی جلد : 7 )

دین اسلام کا مذاق اڑانا اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے ۔ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں لعنت برساتا ہے ۔
اِنَّ الَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمۡ عَذَابًا مُّهِيۡنًا
( سورة الأحزاب :57)
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔

دین اسلام نے ان محافل و مجالس میں بیھٹنے سے منع فرمایا ہے جن میں اللہ تعالیٰ کی آیات اور رسول اللہ کی سنت کا مذاق اڑایا جاتا ہو ۔

اِذَا سَمِعۡتُمۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ يُكۡفَرُ بِهَا وَيُسۡتَهۡزَاُبِهَا فَلَا تَقۡعُدُوۡا مَعَهُمۡ حَتّٰى يَخُوۡضُوۡا فِىۡ حَدِيۡثٍ غَيۡرِهٖۤ‌ ‌ ۖ اِنَّكُمۡ اِذًا مِّثۡلُهُمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُالۡمُنٰفِقِيۡنَ وَالۡكٰفِرِيۡنَ فِىۡ جَهَـنَّمَ جَمِيۡعَا  (سورة النساء :140)

جب تم سنو کہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ اور باتیں نہ کرنے لگیں۔ ان کے پاس مت بیٹھو۔ ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہوجاؤ گے۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ منافقوں اور کافروں سب کو دوزخ میں اکھٹا کرنے والا ہے
منع کرنے کے باوجود بھی تم ان محافل و مجالس کی زینت بنوگے جہاں آیات الٰہی اور سنت نبوی کا قولا یا عملا مذاق اڑایا جاتا ہو تو تم بھی گناہ میں ان کے برابر شریک ہیں ۔لہذا ایسی مجلسوں سے دور رہنا چاہیے جو لوگ ایسی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں ان کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے ۔
حسب طاقت ایسی مجلسوں کو مٹانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔

” مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ “. (صحيح مسلم :49)

تم میں سے کوئی شخص برائی دیکھے اس کو چاہیے کہ اس برائی کو اپنے ہاتھ سے مٹادے اگر ایسا نہیں کر سکتا تو اپنی زبان کے ذریعے لوگوں کو اس برائی سے آگاہ کرے اگر ایسا بھی نہیں کر سکتا کم از کم دل میں اس کو برا ضرور سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۔

(2):مذاق جہوٹ پر مبنی نہ ہو ۔:
جیسا کہ قصہ گو لوگ اپنی مجلسوں کو پر رونق بنانے کے لیے اور لوگوں کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے جہوٹے قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ ان سے متاثر ہوں ۔
جہوٹ کے حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔

(1): جہوٹ بولنے سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
إِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا (سنن ابی داؤد 4989)

تم جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ۔

(2): جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جہوٹ بولتے ہیں ان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وعید سنائی ہے ۔

وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ. (سنن ابی داؤد 4990 اسناده حسن )

تباہی ہے اس کے لیے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ہنسائے، تباہی ہے اس کے لیے، تباہی ہے اس کے لیے۔

(3) ایسا شخص جو مذاق میں بھی جہوٹ بولنے سے احتراز کرے اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی ضمانت دی ہے ۔

أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا، ‏‏‏‏‏‏وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ مَازِحًا، ‏‏‏‏‏‏وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ. (سنن ابی داؤد 4800 اسناده حسن )

میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو خوش اخلاق ہو۔
(3) مذاق کے دوران ہنسنے میں مبالغہ آرائی نہ ہو ۔
ایسا مذاق نہ ہو جس میں کثرت کے ساتھ ہنسا جائے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تُكْثِرُوا الضَّحِكَ،‏‏‏‏ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ. (سنن ابن ماجہ 4193 اسناده صحیح )
زیادہ نہ ہنسا کرو، کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے ۔

(4): ایسا مذاق نہ ہو جس سے کسی کی دل آزاری کی جائے اور کسی کو ذلیل و رسوا کرنا مقصود ہو ۔

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا يَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُوۡنُوۡا خَيۡرًا مِّنۡهُمۡ وَلَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُنَّ خَيۡرًا مِّنۡهُنَّ‌ۚ  (سورة الحجرات :11)

اے ایمان والو : کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ ؛ لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يَخْذُلُهُ ، وَلَا يَحْقِرُهُ، التَّقْوَى هَاهُنَا – وَيُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ – بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ ؛ دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ ” (صحيح مسلم 2564)

مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے آپ ﷺ نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا تقوی یہاں ہے کسی آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو۔

(5): ایسا مذاق نہ ہو جس سے لوگوں کو خوفزدہ کرنا مقصود ہو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا (سنن ابی داؤد 5004 اسناده حسن )
مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو ڈرائے ۔

(6): ایسا مذاق نہ ہو جو غیبت پر مبنی ہو:

وَلَا يَغۡتَبْ بَّعۡضُكُمۡ بَعۡضًا‌ ؕ اَ يُحِبُّ اَحَدُكُمۡ اَنۡ يَّاۡكُلَ لَحۡمَ اَخِيۡهِ مَيۡتًا فَكَرِهۡتُمُوۡهُ‌ ؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيۡمٌ ( سورة الحجرات:12)

نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے۔ (تو غیبت نہ کرو) اور اللہ تعالیٰ کا ڈر رکھو بےشک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” أَتَدْرُونَ مَا الْغِيبَةُ ؟ ” قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ : ” ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ “. قِيلَ : أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ ؟ قَالَ : ” إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ فَقَدْ بَهَتَّهُ “. (صحیح مسلم : 2589)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اپنے بھائی کے اس عیب کو ذکر کرے کہ جس کے ذکر کو وہ ناپسند کرتا ہو آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ ﷺ کا کیا خیال ہے کہ اگر واقعی وہ عیب میرے بھائی میں ہو جو میں کہوں آپ ﷺ فرمایا اگر وہ عیب اس میں ہے جو تم کہتے ہو تبھی تو وہ غیبت ہے اور اگر اس میں وہ عیب نہ ہو پھر تو تم نے اس پر بہتان لگایا ہے۔

(7): ایسا مذاق نہ ہو جو فحش گوئی پر مبنی ہو ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ، وَلَا اللَّعَّانِ، وَلَا الْفَاحِشِ، وَلَا الْبَذِيءِ (سنن الترمذی :1977اسناده حسن)
مومن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا، بےحیاء اور بدزبان نہیں ہوتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
” مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ ، وَمَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ “. (سنن الترمذي 1974 اسناده صحيح)
جس چیز میں بھی بےحیائی آتی ہے اسے عیب دار کردیتی ہے اور جس چیز میں حیاء آتی ہے اسے زینت بخشتی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ “. (صحیح البخاری :48)
مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہوجاتا ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
” مَا شَيْءٌ أَثْقَلُ فِي مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ، وَإِنَّ اللَّهَ لَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيءَ “. (سنن الترمذی: 2002 اسناده صحیح )
قیامت کے دن مومن کے میزان میں اخلاق حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی اور اللہ تعالیٰ بےحیاء، بدزبان سے نفرت کرتا ہے ۔

(8): ایسا مذاق نہ ہو جو عیب گیری اور الٹے القاب پر مبنی ہو ۔

وَلَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ‌ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِيۡمَانِ‌ ۚ وَمَنۡ لَّمۡ يَتُبۡ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ  (سورة الحجرات :11)

اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام (رکھنا) گناہ ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں۔

اب ہم کچھ مذاق کی جائز صورتیں بیان کرتے ہیں ۔

(1) مذاق سچ پر مبنی ہو۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا، قَالَ : ” إِنِّي لَا أَقُولُ إِلَّا حَقًّا “.
(سنن الترمذی : 1990اسناده حسن)
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہم سے ہنسی مذاق کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”میں (خوش طبعی اور مزاح میں بھی) حق کے سوا کچھ نہیں کہتا“

عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، احْمِلْنِي. قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” إِنَّا حَامِلُوكَ عَلَى وَلَدِ نَاقَةٍ “. قَالَ : وَمَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” وَهَلْ تَلِدُ الْإِبِلَ إِلَّا النُّوقُ ؟ ” (سنن ابی داؤد :4998 اسناده صحیح)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اﷲ کے رسول! مجھے کوئی سواری عنایت فرمائیں۔تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ہم تجھے اونٹنی کا بچہ دے دیتے ہیں۔‘‘ وہ بولا: میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’اونٹ کو بھی تو اونٹنی ہی جہنم دیتی ہے۔”

عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” يَا ذَا الْأُذُنَيْنِ ” (سنن ابی داؤد :5002 اسناده حسن )
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک بار) نبی کریم ﷺ نے مجھے یوں پکارا ’’اے دو کانوں والے!‘‘

(2):مذاق کسی مسلمان بھائی کی پریشانی دور کرنے کے لیے ہو ۔اس کی اداسی اور اس کے غموں کو ہلکا کرنے کے لیے ہو ۔
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی ابو عمیر کے ساتھ مذاق کیا کرتے تھے ۔

عن أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ : إِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُخَالِطُنَا حَتَّى يَقُولَ لِأَخٍ لِي صَغِيرٍ : ” يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ ؟ “. (صحیح البخاری :6129)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہم بچوں سے بھی دل لگی کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی ابوعمیر نامی سے (مزاحاً ) فرماتے يا أبا عمير ما فعل النغير‏‏‏.‏ اے ابو عمیر! تیری نغیر نامی چڑیا تو بخیر ہے؟

جیسا کہ سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے کہ ابو عمیر کے پاس چھوٹا پرندہ تھا اس کے ساتھ وہ کھیلتا تھا جب وہ پرندہ مرگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے دل بہلانے کے لیے ،اس کی اداسی کو ختم کرنے کے لیے ،اور اس کو خوش کرنے کے لیے مذاق کیا کرتے تھے ۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَيْنَا وَلِي أَخٌ صَغِيرٌ يُكَنَّى أَبَا عُمَيْرٍ، وَكَانَ لَهُ نُغَرٌ يَلْعَبُ بِهِ، فَمَاتَ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَرَآهُ حَزِينًا، فَقَالَ : ” مَا شَأْنُهُ ؟ “. قَالُوا : مَاتَ نُغَرُهُ. فَقَالَ : ” يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ ؟ “. (سنن ابی داؤد: 4969 اسناده صحيح)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں تشریف لایا کرتے تھے اور میرے چھوٹے بھائی نے جس کی کنیت ’’ابوعمیر‘‘ تھی،اس نے ایک چڑیا رکھی ہوئی تھی جس سے وہ کھیلا کرتا تھا۔(اس چڑیا کو عربی میں «نغیر» کہتے تھے) تو وہ مر گئی۔ایک دن نبی کریم ﷺ اس کے پاس گئے اور اسے غمگین پایا تو پوچھا ’’اسے کیا ہوا ہے؟‘‘ ہم نے بتایا کہ اس کی چڑیا «نغیر» مر گئی ہے۔تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا ’’اے ابوعمیر! کیا کر گیا (تیرا) «نغیر»؟”

(3):مذاق کسی کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ہو ۔
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے کیا کرتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دیہاتی صحابی تھے۔جس کا نام زاہر بن حرام تھا وہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شہر میں آتا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دیہات سے کچھ تحفے تحائف لے کر آتا تھا ۔واپسی کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو کچھ تحفے تحائف دے کر روانہ کرتے تھے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ مذاق اور دل لگی کیا کرتے تھے ۔

عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ كَانَ اسْمُهُ زَاهِرًا، وَكَانَ يُهْدِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْهَدِيَّةَ مِنَ الْبَادِيَةِ، فَيُجَهِّزُهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” إِنَّ زَاهِرًا بَادِيَتُنَا وَنَحْنُ حَاضِرُوهُ “. وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّهُ، وَكَانَ رَجُلًا دَمِيمًا، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَهُوَ يَبِيعُ مَتَاعَهُ، فَاحْتَضَنَهُ مِنْ خَلْفِهِ وَلَا يُبْصِرُهُ الرَّجُلُ، فَقَالَ : أَرْسِلْنِي، مَنْ هَذَا ؟ فَالْتَفَتَ فَعَرَفَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ لَا يَأْلُو مَا أَلْصَقَ ظَهْرَهُ بِصَدْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عَرَفَهُ، وَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ” مَنْ يَشْتَرِي الْعَبْدَ ؟ ” فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَنْ وَاللَّهِ تَجِدُنِي كَاسِدًا. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَكِنْ عِنْدَ اللَّهِ لَسْتَ بِكَاسِدٍ ” أَوْ قَالَ : ” لَكِنْ عِنْدَ اللَّهِ أَنْتَ غَالٍ “.
(مسند احمد : 12648اسناده صحيح)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی آدمی، جس کا نام زاہر تھا، وہ دیہات سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں تحائف لایا کرتا تھا، اس کی واپسی پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی اسے بدلے میں کوئی چیز عطا فرمایا کرتے تھے، ایک دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زاہر ہمارا دیہاتی اور ہم اس کے شہری ہیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس سے بہت محبت تھی، وہ سیدہی سادی صورت والا آدمی تھا، وہ ایک دن اپنا سامان بیچ رہا تھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس پہنچ گئے، وہ نہ دیکھ سکا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے پیچھے سے اسے پکڑ کر اپنے بازووں کے حصار میں لے لیا، وہ کہنے لگا: مجھے چھوڑ، کون ہے؟ اس نے مڑ کر دیکھا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پہچان لیا، اب وہ کوشش کرکے اپنی پشت کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سینہ مبارک کے ساتھ اچھی طرح لگانے لگا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمانے لگے: اس غلام کو کون خریدے گا؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! آپ مجھے کم قیمت پائیں گے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن اللہ کے ہاں تو تمہاری کم قیمت نہیں ہے ، بلکہ اللہ کے ہاں تمہاری بہت زیادہ قیمت ہے۔

کچھ چیزیں ہیں جن میں مذاق کا اعتبار نہیں کیا جاتا ہے ۔مطلب ان میں مذاق قابل قبول نہیں ہے ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” ثَلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ : النِّكَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجْعَةُ “. (سنن ابي داود: 2194 اسناده حسن )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تین باتیں ایسی ہیں اگر کوئی ان کو حقیقت اور سنجیدگی میں کہے،تو حقیقت ہیں اور ہنسی مزاح میں کہے،تو بھی حقیقت ہیں۔نکاح،طلاق اور (طلاق سے) رجوع۔‘‘
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم مذاق کرنے میں قرآن و سنت کی پیروی کریں اور اپنی اصلاح کریں۔

تحریر: افضل ظہیر جمالی