سوال (3633)
کیا یہ درست ہے کہ حرام کا لقمہ کھانے سے چالیس روز تک نماز نہیں ہوتی ہے۔
جواب
“من اكل لقمة من حرام لم تقبل منه صلاة اربعين ليلة”
”جس نے حرام کا ایک لقمہ کھایا چالیس روز اس کی نماز قبول نہیں کی جاتی۔“
تخریج الحدیث: «منكر»:
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے موضوع کہا ہے۔ [كما فى الفوائد المجموعة ص: 146]
حافظ عراقی رحمہ الله اور علامہ طاہر پٹنی رحمہ الله نے اسے منکر کہا ہے۔
[المغني عن حمل الاسفار 436/1]، [تخريج الاحياء 143/4]، [تذكرة الموضوعات ص: 134]
علامہ ابن عراق رحمہ الله نے نقل فرمایا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ الله نے «”لسان الميزان“» میں اس حدیث کو منکر کہا ہے۔ [تنزيه الشريعة 327/2]
واللہ اعلم باالصواب
فضیلۃ العالم عبد اللہ عزام حفظہ اللہ
کیا یہ درست ہے کہ حرام کا لقمہ کھانے سے چالیس روز تک نماز نہیں ہوتی ہے۔
اس بارے میں کوئی روایت شروط صحت پر پورا نہیں اترتی ہے، بلکہ جو کچھ مروی ہے وہ وضعی اور ضعیف و منکر ہے۔
ملاحظہ کریں:
پہلی روایت:
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻭاﻟﺪﻱ، ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ، ﺃﻧﺒﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻷﺩﻳﺐ، ﺑﺄﺳﺒﻴﺠﺎﻥ، ﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ اﻟﺮاﺯﻱ اﻟﺰاﻫﺪ، ﻧﺎ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﺩاﻭﺩ، ﻧﺎ ﺷﻘﻴﻖ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ اﻟﺒﻠﺨﻲ اﻟﺰاﻫﺪ، ﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻫﺎﺷﻢ اﻷﺑﻠﻲ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻣﻦ ﺃﻛﻞ ﻟﻘﻤﺔ ﻣﻦ اﻟﺤﺮاﻡ ﻟﻢ ﺗﻘﺒﻞ ﻟﻪ ﺻﻼﺓ ﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﻳﻮﻣﺎ فوائد أبي علي بن فضالة:(6)
قلت الطيبي سنده ضعيف جدا منكر يضعه كثير بن عبد الله الأبلي على أنس بن مالك رضى الله عنه:
اب اس منکر وضعی روایت کے اسباب ضعف بیان کیے جاتے ہیں۔
(1) ﺷﻘﻴﻖ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ اﻟﺒﻠﺨﻲ ائمہ زھاد میں سے ہیں مگر ان کی روایت حدیث میں توثیق کسی بھی امام ومحدث سے ثابت نہیں ہے۔
(2) ﻛﺜﻴﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺃﺑﻮ ﻫﺎﺷﻢ اﻷﺑﻠﻲ ضعیف ،منکر الحدیث راوی ہے۔
امام بخاری نے کہا:
ﻣﻨﻜﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻦ ﺃﻧﺲ، [التاريخ الأوسط للبخارى:2/ 143(2092)، الضعفاء الصغير:(321)]
امام مسلم نے کہا:
ﻣﻨﻜﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ، [الكنى والأسماء للإمام مسلم :2/ 875]
امام نسائی نے کہا:
ﻣﺘﺮﻭﻙ اﻟﺤﺪﻳﺚ، [الضعفاء والمتروكون: (506)]
امام ابو حاتم الرازی نے کہا:
ﻫﻮ ﻣﻨﻜﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺿﻌﻴﻒ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺟﺪا ﺷﺒﻪ اﻟﻤﺘﺮﻭﻙ ﺑﺎﺑﺔ ﺯﻳﺎﺩ، [الجرح والتعديل: 7/ 154]
امام ابن حبان نے کہا:
ﻛﺎﻥ ﻣﻤﻦ ﻳﺮﻭﻱ ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﻣﺎ ﻟﻴﺲ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﺭﺅﻳﺘﻪ ﻭﻳﻀﻊ ﻋﻠﻴﻪ ﺛﻢ ﻳﺤﺪﺙ ﺑﻪ ﻻ ﻳﺤﻞ ﻛﺘﺎﺑﺔ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻭﻻ اﻟﺮﻭاﻳﺔ ﻋﻨﻪ، [المجروحين لابن حبان: (896) 2/ 223]
امام عقیلی نے کہا:
ﻭﻻ ﻳﺘﺎﺑﻌﻪ ﺇﻻ ﻧﺤﻮﻩ ﻓﻲ اﻟﻀﻌﻒ، [الضعفاء الكبير للعقيلى: (1560) 4/ 8]
(3) اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﺩاﻭﺩ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﺫ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ اﻟﺒﻠﺨﻲ ﺳﻜﻦ ﻧﻴﺴﺎﺑﻮﺭ
ایسا راوی ہے جس کی توثیق نہیں کی گئ بلکہ یہ ضعیف اور ناقابل اعتبار راوی ہے۔
تفصیل سے ترجمہ دیکھیے تاریخ بغداد: (4053) میں۔
امام خطیب بغدادی نے کہا:
ﻭﻟﻢ ﻳﻜﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﺩاﻭﺩ ﺛﻘﺔ، ﻓﺈﻧﻪ ﺭﻭﻯ ﻧﺴﺨﺔ ﻋﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﻫﺎﺭﻭﻥ، ﻋﻦ ﺣﻤﻴﺪ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ، ﺃﻛﺜﺮﻫﺎ ﻣﻮﺿﻮﻉ،
حوالہ سابقہ
حافظ ابن جوزی نے کہا:
ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻟﺨﻄﻴﺐ ﻟﻴﺲ ﺑﺜﻘﺔ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻣﻮﺿﻮﻉ، [الضعفاء: 881]
حافظ ذہبی نے کہا:
ﻭﺃﺣﺪ اﻟﻤﺘﺮﻭﻛﻴﻦ، [تاريخ الإسلام للذهبى :21/ 159]
(4) ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ، ﺃﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ اﻟﺮاﺯﻱ
حافظ ذہبی نے کہا:
ﻻ ﺃﻋﺮﻓﻪ، ﻟﻜﻦ ﺃﺗﻰ ﺑﺨﺒﺮ ﺑﺎﻃﻞ، ﻫﻮ ﺁﻓﺘﻪ، [میزان الاعتدال : 7146]
(5) ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ اﻟﻤﺆﺩﺏ
حافظ ابن حجر نے کہا:
ﻟﻴﺲ ﺑﺜﻘﺔ، [لسان الميزان:2/ 258]
دوسری روایت:
ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﻔﻀﻞ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ، ﺛﻨﺎ ﻣﺎﻟﻚ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ، ﺛﻨﺎ ﺟﺮﻳﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺤﻤﻴﺪ اﻟﺮاﺯﻱ، ﻋﻦ اﻷﻋﻤﺶ، ﻋﻦ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﻭﻫﺐ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻣﻦ ﺃﻛﻞ ﻟﻘﻤﺔ ﻣﻦ ﺣﺮاﻡ ﻟﻢ ﺗﻘﺒﻞ ﻟﻪ ﺻﻼﺓ ﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﻟﻴﻠﺔ، ﻭﻣﻦ ﺃﻛﻞ ﻟﻘﻤﺔ ﺣﺮاﻡ ﻟﻢ ﺗﺴﺘﺠﺎﺏ ﻟﻪ ﺩﻋﻮﺓ ﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﺻﺒﺎﺣﺎ، ﻭﻛﻞ ﻟﺤﻢ ﺃﻧﺒﺘﻪ اﻟﺤﺮاﻡ ﻓﺎﻟﻨﺎﺭ ﺃﻭﻟﻰ ﺑﻪ، ﻭﺇﻥ القمة اﻟﻮاﺣﺪﺓ ﺗﻨﺒﺖ اﻟﻠﺤﻢ
[المنتقى من مسموعات مرو للمقدسي:178،لسان الميزان :4/ 444 ترجمہ اﻟﻔﻀﻞ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ اﻟﻴﺸﻜﺮﻱ اﻟﻬﺮﻭﻱ سنده ضعيف جدا]
(1) اﻟﻔﻀﻞ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ،
اس کے بارے میں امام ابن حبان نے کہا:
ﻳﺮﻭﻱ ﻋﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻭﻏﻴﺮﻩ اﻟﻌﺠﺎﺋﺐ ﻻ ﻳﺠﻮﺯ اﻻﺣﺘﺠﺎﺝ ﺑﻪ ﺑﺤﺎﻝ ﺷﻬﺮﺗﻪ ﻋﻨﺪ ﻣﻦ ﻛﺘﺐ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎبناﺣﺪﻳﺜﻪ ﻳﻐﻨﻲ ﻋﻦ اﻟﺘﻄﻮﻳﻞ ﻓﻲ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﻓﻲ ﺃﻣﺮﻩ ﻓﻼ ﺃﺩﺭﻱ ﺃﻛﺎﻥ ﻳﻘﻠﺒﻬﺎ بنفسه ﺃﻭ ﻳﺪﺧﻞ ﻋﻠﻴﻪ ﻓﻴﺠﻴﺐ ﻓﻴﻬﺎ، [المجروحين لابن حبان: 2/ 211]
(2) مالک بن سلیمان کا تعین نہیں ہو پایا۔
(3) سلیمان الاعمش کا عنعنہ ہے سماع کی صراحت نہیں ہے۔
فائدة:
صحیح مسلم کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ
حرام خور کی دعا حرم کعبہ میں بھی کرے تو قبول نہیں ہوتی ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ دعا بھی عبادت ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ” ﺃﻳﻬﺎ اﻟﻨﺎﺱ، ﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﻃﻴﺐ ﻻ ﻳﻘﺒﻞ ﺇﻻ ﻃﻴﺒﺎ، ﻭﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﺃﻣﺮ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﺑﻤﺎ ﺃﻣﺮ ﺑﻪ اﻟﻤﺮﺳﻠﻴﻦ، ﻓﻘﺎﻝ: {ﻳﺎ ﺃﻳﻬﺎ اﻟﺮﺳﻞ ﻛﻠﻮا ﻣﻦ اﻟﻄﻴﺒﺎﺕ ﻭاﻋﻤﻠﻮا ﺻﺎﻟﺤﺎ، ﺇﻧﻲ ﺑﻤﺎ ﺗﻌﻤﻠﻮﻥ ﻋﻠﻴﻢ}
[ اﻟﻤﺆﻣﻨﻮﻥ: 51] ﻭﻗﺎﻝ: {ﻳﺎ ﺃﻳﻬﺎ اﻟﺬﻳﻦ ﺁﻣﻨﻮا ﻛﻠﻮا ﻣﻦ ﻃﻴﺒﺎﺕ ﻣﺎ ﺭﺯﻗﻨﺎﻛﻢ}
[ اﻟﺒﻘﺮﺓ: 172] ﺛﻢ ﺫﻛﺮ اﻟﺮﺟﻞ ﻳﻄﻴﻞ اﻟﺴﻔﺮ ﺃﺷﻌﺚ ﺃﻏﺒﺮ، ﻳﻤﺪ ﻳﺪﻳﻪ ﺇﻟﻰ اﻟﺴﻤﺎء، ﻳﺎ ﺭﺏ، ﻳﺎ ﺭﺏ، ﻭﻣﻄﻌﻤﻪ ﺣﺮاﻡ، ﻭﻣﺶﺭﺏﻫ ﺣﺮاﻡ، ﻭﻣﻠﺒﺴﻪ ﺣﺮاﻡ، ﻭﻏﺬﻱ ﺑﺎﻟﺤﺮاﻡ، ﻓﺄﻧﻰ ﻳﺴﺘﺠﺎﺏ ﻟﺬﻟﻚ؟
[صحیح مسلم: 1015]
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
ﻳﺎ ﻛﻌﺐ ﺑﻦ ﻋﺠﺮﺓ، ﺇﻧﻪ ﻻ ﻳﺪﺧﻞ اﻟﺠﻨﺔ ﻟﺤﻢ ﻧﺒﺖ ﻣﻦ ﺳﺤﺖ اﻟﻨﺎﺭ
اے کعب بن عجرہ بلاشبہ حرام مال سے نشو نما پانے والا گوشت جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
[مسند أحمد بن حنبل :14441 سنده حسن لذاته]
تنبیہ: قرآن وحدیث میں جہاں بھی کبیرہ گناہ اور حرام امور پر سخت وعید آئی ہے جیسے لا يدخل الجنة اور حرم الله عليه الجنة وغیرہ تو اس سے مراد ہے کہ وہ اعلی جنت میں یا اول فرصت میں داخل نہیں ہوں گے اور حرام ہونے کا معنی زیادہ عرصہ ہے اور پہلی فرصت میں جنت میں داخل نہ کیا جانا ہے اور اس پر تفصیل سے لکھنے کا یہ موقع نہیں ہے نہ ہی وقت مناسب ہے کیونکہ ایک جگہ مہمان ہوں۔ تو حرام خوری کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے اس سے اہل ایمان کو ہر صورت بچنا چاہیے ہے کیونکہ یہ خبیث عمل ایمان وتقوی کے منافی ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ