برگِ گُل سے لے کر خزاں رسیدہ پتّوں تک، سب کچھ ہی انسان کو قدرتی حُسن و جمال کا شاہ کار دِکھائی دیتا ہے, اگر کوئی بھی انسان توانا اور صحت مند ہو تو یہ ساری دنیا اس کے لیے بڑی ہی دل کش اور دل رُبا ہے، صحت بھی عجیب نعمتِ خداوندی ہے کہ کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی انسان دنیا کا امیر ترین شخص ہوتا ہے اور اِس کی عدم موجودگی میں اربوں روپے ہونے کے باوجود انسان انتہائی قلاش اور مفلس ترین شخص سمجھا جاتا ہے۔شاید بساطِ ارض پر ایمان کے بعد، صحت سے قیمتی اور گراں مایہ کوئی شے ہے ہی نہیں، تھوڑی بہت مالی آسودگی ہو تو صحت سے بڑھ کر کوئی نعمت دنیا میں موجود ہی نہیں۔قربان علی سالک بیگ نے بھی یہ حقیقت یوں بیان کی تھی۔
تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ
تن درستی ہزار نعمت ہے
ویسے تو زندگی کے تمام موسم ہی بے اعتبار ہوتے ہیں اور بے اختیار بھی، زیست تو ہمہ وقت لڑکھڑاتی رہتی ہے، کس لمحے سانسوں کا سلسلہ منقطع ہو جائے ، یہ کسی کو پتا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ہر طرح کے مال و متاع کی کشادگی کے باوجود خدانخواستہ کوئی مستقل عارضہ لگ جائے تو چہرے کی تمام تر شادابی اور رعنائی ماند پڑ جاتی ہے، لبوں کے تبسّم مسموم ہوکر رہ جاتے ہیں، پھر خیال کدے میں تفکرات اور مایوسیوں کے غبار مسلسل اٹھتے رہتے ہیں، ایسی اذیت ناک ساعتوں میں اگر سرکاری ہسپتالوں میں جائیں تو سامنے افسرانہ مزاج، بے رخی اور بے اعتنائی منہ چِڑا رہی ہوتی ہے اور اگر پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کر لیں تو سب کچھ ہی لوٹ لیا جاتا ہے، اس لیے کہ ڈاکٹرز کی فیس کا کوئی دائرہ اور حدود و قیود ہیں ہی نہیں، جو جتنی چاہے فیس لے، ڈاکٹرز کا کوئی احتساب ہوتا ہی نہیں۔
آج ڈاکٹرز کی اخلاقی گراوٹ کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ مسیحا کم اور افسر زیادہ دِکھائی دیتے ہیں۔یہ عجیب صورتِ حال ہے کہ یہ لوگ مریضوں کا علاج کرنے کے لیے ڈاکٹر بنتے ہیں اور مریضوں کے لیے ہی اِن کے پاس وقت نہیں ہوتا، بڑی مشکل سے دو تین منٹ مریض کو دے کر دو تین ہزار روپے اَینٹھ لیتےہیں۔
ایف ایس سی کرنے تک کسی بھی طالبِ علم کے دل میں مُلک و قوم کی خدمت کا جذبہ مکمل آب و تاب کے ساتھ ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے مگر اِسے میڈیکل کالجز میں موجود نظامِ تعلیم کی خرابی کہیں یا تربیت میں کمی کجی کہ آیندہ چار سالوں میں ہی اکثر طلبہ و طالبات کا دل انسانیت اور مسیحائی سے بالکل تہی ہو کر رہ جاتا ہے۔
تمام ڈاکٹرز کو اِس بات کا ادراک ہے کہ کسی بھی مریض کا علاج کرنے کے لیے جتنی دوا کی افادیت ہوتی ہے، اس سے کہیں زیادہ اَہَمّیت ڈاکٹر کے رویّے کی ہے۔آج ڈاکٹر سنگلاخ دل ہی نہیں ہو گئے بلکہ ان کی اکثریت چڑچڑی اور بد مزاجی کے ساتھ ساتھ روپے پیسے کے لوبھ میں بھی مبتلا ہو چکی ہے۔نشتر ہسپتال کی چھت پر لاشوں کی خبروں نے تو ڈاکٹرز کی بے حسی بلکہ سفاکیت مزید طشت از بام کر کے رکھ دی ہے۔ہمارے شہر کہروڑ پکا کو بھی یہ ” اعزاز “ حاصل ہے کہ یہاں سٹور میں آگ لگا کر کروڑوں روپے مالیت کی ادویات غائب کی جا چکی ہیں۔آپ کسی بھی ہسپتال کو دیکھ لیں، ڈلیوری کے لیے آنے والی شاید ہی کوئی خوش نصیب خاتون ایسی ہو گی جو آپریشن جیسی جان کاہ اذیت سے محفوظ رہی ہو، خواتین کے ساتھ یہ ظلم مسلسل ہو رہا ہے اور اس کی راہ میں آج تک کسی بھی حکومت نے رخنے حایل نہیں کیے۔
اگر صحت نہ ہو تو صحنِ گلشن میں جتنی بھی رنگین اور شاداب بہاریں اتر آئیں، وہاں پر شوخ و شنگ تتلیاں بھی اٹکھیلیاں کرتی رہیں، وہاں نکہتِ بادِ بہاری جس قدر بھی اِتراتی پھریں، انسان کا دل ان کی طرف مایل ہوتا ہی نہیں، ایسے میں اگر کوئی مسیحا اپنے رویّے سے کسی غم زدہ مریض کے اضطراب میں مزید اضافہ کر دے تو سب کچھ پھیکا ہی تو لگنے لگتا ہے، تب کچھ بھی تو اچھا نہیں لگتا اور مریض کو موت سامنے نظر آنے لگتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنا کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی اور یہ بھی ایک الم ناک حقیقت ہے کہ ہم ایک ایسے مُلک کے شہری ہیں جہاں ” انسانیت “ سے تہی دل کے ساتھ دنیا کے قابل ترین ڈاکٹرز موجود ہیں۔
مَیں جب بھی اپنے شہر کے سرکاری ہسپتال میں داخل ہوتا ہوں تو بہت سے ملازمین ہسپتال کے فرش پر پوچا مار رہے ہوتے ہیں مجھے یہ منظر دیکھ کر یہ خیال رہ رہ کر آتا ہے کہ جتنا پوچا ہسپتالوں کے فرش پر مارا جا رہا ہے، اسی طرح کوئی ایک آدھ ٹاکی ڈاکٹرز کے حرص و ہوس سے اٹے دلوں پر بھی ماری جائے تو مریضوں کو قدرے بہتر سہولیات مل سکتی ہیں۔مضطر خیرآبادی نے کہا تھا۔
علاجِ دردِ دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
تم اچھا کر نہیں سکتے، مَیں اچھا ہو نہیں سکتا