اسلام میں مولوی کا کوئی پیشہ نہیں

کہا گیا اسلام میں مولوی کا کوئی پیشہ نہیں،یہ وہ کام ہیں جو ہر مسلمان کو آنے چاہئیں۔ کیسے سادہ ذہن کے لوگ ہیں ہم بھی، اچھا ایک بات بتائیے،گھر کی حفاظت ہر شخص کو کرنی آتی ہے،پھر ہم نے گھر اور گلی میں چوکیدار کیوں رکھے ہیں؟ روپے پیسے کا حساب ہر شخص کر سکتا ہے، پھر ہم نے اکاؤنٹنٹ کیوں رکھے ہیں؟ گاڑی والے کو گاڑی چلانی آتی ہے؟ پھر اس نے ڈرائیور کیوں رکھا ہے؟ آدمی اپنا معمول خود مرتب کر سکتا ہے، پھر اس نے سیکریٹری کیوں رکھے؟ ڈاکٹر اٹھ کے دوائی خود دے سکتا ہے پھر اس نے ٹیکا لگانے کیلئے نرس اور دوا دینے کیلئے کمپاؤنڈر کیوں رکھا ہے؟ ظاہر ہے، اس کی ضرورت ہے،یہ سپیشلائزیشن کا دور ہے، یہاں تک کہ ایک ہی جسم کے دسیوں سپیشلسٹ ڈاکٹر ہیں، ہمارا پیا ہوا پانی جب گردے تک پہنچتا ہے تو اسے ڈیل کرنے والا ڈاکٹر نیفرالوجسٹ ہے، یہی پانی جب اپنے اخراج کے مرحلے کی طرف بڑھتا ہے تو اس کا ڈاکٹر الگ ہے، اسے یورالوجسٹ کہا جاتا ہے،یہ سب تام جھام کیوں ہے؟ کیا لوگوں کے پاس عقل نہیں یا پیسے زیادہ ہیں؟ ظاہر ہے، اس کے بغیر وہ کام اچھی طرح نہیں ہو سکتے۔ گویا دنیا کے معاملے میں سپیشلائزیشن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دین یا مولوی کے بارے ہمارا خیال ہے کہ یہ تو ہر شخص کر سکتا ہے۔ روحانی معاملات میں تو ہم یہ کہتے ہیں، جبکہ جسمانی معاملات میں ڈاکٹر کے پاس جانا ہو تو 70 میں سے کسی خاص کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں، درزی ڈھونڈ کے چنتے ہیں، ہر حجام کو اپنے لئے کارآمد نہیں سمجھتے۔یعنی دنیاوی اعتبار سے سپیشلسٹ میں سے مزید محنت سے اچھا سپیشلسٹ ڈھونڈتے ہیں اور دین کے بارے ہمارا خیال کہ یہ تو ہر شخص کر سکتا ہے۔ نہیں کر سکتا بھائی، دین چند دنوں، چند مہینوں یا چند سالوں میں بھی اتنا نہیں آجاتا کہ آپ شرعی رہنمائی کرنے لگیں۔زندگیاں لگانے سے ہی اس کا کچھ حصہ ہاتھ آتا ہے، دنیاوی امور کو وقت دیتے ہوئے ہر شخص یہ کر سکتا ہوتا تو آج ہر شخص ابن باز، علامہ البانی ،مفتی تقی عثمانی، مفتی عبدالستار حماد اور ارشادالحق اثری ہوتا ۔
اچھا چلئے،سب نے نماز روزہ سیکھ لیا، جنازے کی دعائیں سیکھ لیں، چلیے میں نے مان لیا کہ ہر الیکٹریشن اور ریڑھی اور دکان والا مفتی تقی عثمانی جیسا شیخ الحدیث بن گیا، ہر محلے میں ایک امام بخاری پیدا ہوگیا، تو کیا مسجد کا نظام چل جائے گا؟کیا لوگ کاروبار چھوڑ کے اذان کہنے آجائیں گے۔کیا انسانوں میں کوئی ایسی چپ فٹ ہو جائے گی کہ وہ معلوم کر لیں آج کس نے کون سی اذان دینی ہے،کون سی نماز پڑھانی ہے؟ کیا کسی خاص شخص کو ذمے داری سونپے بغیر وہ لوگ مسجد کا ڈسپلن فالو کر لیں گے،جنھیں بیوی کے کہنے پر سبزی کے ساتھ دھنیا لانا یاد نہیں رہتا؟ کیا وہ بغیر واجب ذمے داری کے مسجد کا پنج وقتہ بروقت نماز کا شیڈول فالو کر لیں گے؟ جب تک کسی کو کسی کام پر مقرر نہیں کیا جاتا انتظامی طور پر بھی وہ کام ممکن نہیں ہو پاتا، علمی بات تو خیر چیزے دیگر است۔
دراصل بات یہ ہے کہ نہ دین کو ہم نے سنجیدہ لیا، نہ اس کے معاملات کی وسعت و گہرائی کا اندازہ کیا اور نہ دور جدید کی ترتیب و تنظیم کے اعتبار سے مسجد اور مولوی کو سوچا۔ قصور اس میں مولوی کا بھی ہے، اس نے دنیا کو عملا بتایا کہ میں زمین پر اترا خدا کا فرشتہ ہوں، نہ میرے جذبات و احساسات ہیں اور نہ ضروریات و مسائل۔

#یوسف_سراج

یہ بھی پڑھیں:مساجد اور مدارس کے لیے بجٹ میں کیا کچھ ہے؟