جسٹس بابر ستار کو سلام !
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے آج ایک تاریخی فیصلہ صادر کیا ہے جس کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تسلسل سے لکھا جاتا رہے گا۔ یہ فیصلہ چیف کمشنر اسلام آباد کی طرف سے نظربندی کے احکامات جاری کیے جانے کے اختیارات کے بارے میں تھا۔ سردست فیصلے کے اس پہلو کے بارے میں تبصرہ نہیں کیا جا رہا مگر جسٹس بابر ستار نے اس فیصلے میں یہ قرار دے دیا ہے کہ اسلام آباد کیپٹل ایڈمنسٹریشن کے لئے “صوبائی حکومت” سے مراد وفاقی حکومت ہے اور اس حوالے سے 1980، 1987 اور 1990 کے ان صدارتی آرڈرز کو کالعدم قرار دے دیا ہے جن کی رو سے چیف کمشنر اسلام آباد کو اسلام آباد کے لئے “صوبائی حکومت” تصور کیا جاتا ہے۔
یہ فیصلہ اس حوالے سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اسلام آباد کو ایک بیوروکریٹ کی حکومت سے نجات ملنے کی امید بندھی ہے۔ ہم نے کئی بار اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اسلام آباد کے حوالے سے کئی گئی قانون سازی میں جہاں بھی حکومت کا ذکر ہوتا ہے وہاں چیف کمشنر اسلام آباد خود کو حکومت قرار دے کر من مانے فیصلے صادر کرتے ہیں۔ اسلام آباد کی حد تک چیف کمشنر نے ایک ایسے طاقتور حکومتی سربراہ کا انداز اختیار کر لیا تھا جو وزیراعظم اور وزرائے اعلی کو بھی حاصل نہیں تھا کہ وہ مصطفے امپیکس کیس کی رو سے کابینہ کی مشاورت کے پابند ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے اپنے فیصلے میں یہ بھی قرار دیا ہے کہ اسلام آباد کے لئے وفاقی حکومت ہی صوبائی حکومت کے مترادف ہے اور اس کام کے لئے فرد واحد کے بجائے وفاقی کابینہ بطور وفاقی حکومت اختیارات استعمال کرے گی۔ فیصلے میں وفاقی حکومت کو تین ماہ کے اندر صوبائی حکومت کے طور پر اختیارات استعمال کرنے کے حوالے سے رولز آف بزنس بنانے کی ہدایت بھی کی ہے۔

اس فیصلے سے یقینا حکومتی حلقوں، بیوروکریسی اور طاقت کے ان مراکز میں کھلبلی مچ جائے گی جو بیوروکریسی کے ذریعے اسلام آباد کے تمام اداروں کے انتظامی اختیارات کو من مانے طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ اس فیصلے کو اپیل کے ذریعے غیر موثر کرنے اور لمبے عرصے تک لٹکانے کی کوشش بھی کی جائے گی جس کے خلاف اسلام آباد کے وکلاء، سیاسی کارکنان اور شہریوں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔

عزیر الرحمٰن