6 دسمبر 1992 ۔۔۔۔۔۔۔ جب 31 سال قبل بھارتی شہر فیض آباد میں 1528 سے بنی عظیم الشان بابری مسجد کو بھارت بھر سے آئے لاکھوں ہندو کارسیوکوں نے ہلہ بول کر دن دہاڑے مسمارکرڈالا۔
اس دن سے پہلے ایل کے ایڈوانی اور دیگر انتہا پسند آر ایس ایس رہنما پورے ملک میں رتھ یاترائیں چلاتے رہے اور پورے بھارت کے اپنے ہم مذہب لوگوں کو اکساتے رہے کہ ہم بابری مسجد گرائیں گے اور یہاں مندر بنائیں گے۔ بھارتی عدالتوں کے حکم امتناعی کے فیصلوں کے باوجود یہاں سب کچھ ہوتا رہا اور سرکار تماشا دیکھتی رہی، پھر مسجد کو گرا دیا اور اس کے بعد پورے بھارت میں بھڑکنے والے ہنگاموں میں مزید سینکڑوں مساجد کے ساتھ ہزاروں مسلمان بھی شہید ہوئے تو اب تک کسی ایک قاتل فسادی ہندو کو سزا نہ ملی اور ان میں سے بھی اکثر مساجد دوبارہ نہ بن سکیں۔
بابری مسجد کی جگہ اس وقت بہت بڑا مندر تعمیر کے آخری مراحل میں ہے، جس کا اگلے سال نریندر مودی خود افتتاح کرے گا، نریندر مودی نے طویل عرصے سے سپریم کورٹ میں رکا مقدمہ بھی تین سال قبل مکمل کروایا جب سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ بابری مسجد کے مقام پر رام کی پیدائش کا تو کوئی ثبوت نہیں ملا نہ اس بات کا ثبوت ملا ہے کہ یہاں کوئی رام مندر تھا لیکن جھگڑا ختم کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ یہاں مندر بنا دیا جائے اور مسلمانوں کو نئی متبادل مسجد کی الگ جگہ اور تعمیر کاپیسہ دے دیا جائے۔
مسلمانوں نے بہت شور غوغا کیا لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی اور پھر بھارتی سپریم کورٹ نے انہیں بابری مسجد سے 26 کلومیٹر دور جو جگہ مسجد کے لئے دی تھی تو انتظامیہ نے یہ پابندی بھی لگائی تھی کہ وہ جو نئی مسجد بنائیں گے اس کا ڈیزائن بھی بابری مسجد جیسا نہیں ہو گا نہ اس کانام بابری مسجد ہو گا۔ اس کے باوجود بھی اس مسجد کا بھی اب تک سنگ بنیاد تک نہیں رکھا جا سکا۔
1527 میں اولین مغل بادشاہ بابر نے ہندو راجے رانا سانگا کو شکست دے کر جب ہندوستان کو مکمل فتح کیا تو اس نے اگلے سال 1528 میں یہاں اسی فتح کی یاد میں مسجد تعمیر کی۔ یہ مسجد فن تعمیر کا شاہکار تھی جہاں انگریز کی آمد تک اذان و نماز بلا روک ٹوک جاری رہی، انگریز کی آمد کے ساتھ ہی یہاں جھگڑا شروع ہوا اور باربار تالا بندی ہوتی رہی کہ انگریز جج مسلمانوں کے خلاف فیصلے دے دیتے تھے, تقسیم ہند کے ساتھ ہی 1947 میں ہندؤں نے نصف شب کو یہاں صحن میں مورتیاں پھینک دیں اور نماز فجر کے وقت جب مؤذن نے وہ مورتیاں دیکھ کر مسجد کے باہر نکالیں تو پاس ہی چھپے ہندؤں نے اسی وقت یہاں ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ رام کی مورتیاں مسجد کے صحن سے اگی ہیں اور مسلمانوں نے توہین کرتے ہوئے انہیں باہر پھینک دیا ہے ۔ اس کے بعد یہاں مستقل تالا بندی ہو گئی اور پھر کسی عدالت نے مسجد کو دوبارہ نہ کھولا ۔۔۔۔۔۔
1992 میں مسجد شہید ہوگئی، پھر کئی دیگر مساجد پر یہی الزام لگا کہ مندر توڑ کر بنی ہیں۔ بابری مسجد توڑنے والے یہ الزام تین ہزار مساجد تک لے جانے کے بعد اب ساری ہی مساجد کو گرانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ہر شہر میں مساجد سے سپیکر اتارے جا رہے ہیں، مساجد کی قلت اور مزید تعمیر کی اجازت نہ ملنے پر کھلے میدانوں میں مسلمانوں کے نماز جمعہ تک ادا کرنے پر پابندی لگ چکی ہے۔ مسلمان گھروں میں نماز جمعہ یہاں تروایح ادا کریں تو پولیس مار دھاڑ پکڑ دھکڑ کرتی ہے۔ ملک میں ہزاروں مدارس کو بلڈوز اور بند کیا جا چکا ہے۔ یوں ایک بابری مسجد سے شروع ہونے والا مقدمہ پورے بھارت میں ہر مسلم اور ہر مسجد و مدرسے کے خاتمے کی طرف جا چکا ہے۔

(حق سچ ،علی عمران شاہین)