جامعہ سلفیہ کے سابقہ وحاضر ناظمين ومدیر التعلیم کا مختصر تعارف

جامعہ کے داخلی امور کی دیکھ بھال کے لیے ایک ناظم مقرر کیا جاتا ہے جو طلبہ کی ضروریات کتب، رہائش، خوراک،اور دیگر ضروریات کی براہ راست نگرانی کرتاہے اساتذه طلبہ کی حاضری کو یقینی بناتا ہے۔ اورجامعہ سلفیہ کمیٹی کو جامعہ کی کارکردگی سے آگاہ کرتاہے۔
●جامعہ کے قیام سے لے کر اب تک جن حضرات نے خدمت سرانجام دی ان کے نام درج ذیل ہیں۔
(1)مولانامحی الدین احمد قصوری رحمہ اللہ
(2)شیخ الحدیث محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ
(3)فضیلة الشیخ عبید اللہ احرار رحمہ اللہ
(4)حافظ محمد اسماعیل ذبیح رحمہ اللہ
(5)فضیلة الشیخ محمد صدیق رحمہ اللہ
(6)فضیلة الشیخ ابو حفص عثمانی رحمہ اللہ
(7) فضیلة الشیخ محمد اسحاق چیمہ رحمہ اللہ
(8)فضیلة الشیخ حافظ ثناءاللہ مدنی رحمہ اللہ
(9)فضیلة الشیخ پروفیسرعبید الرحمن مدنی رحمہ اللہ
(10)شیخ الحدیث حافظ مسعود عالم صاحب حفظہ اللہ
(11)ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ
(12)پروفیسر محمد یاسین ظفر حفظہ اللہ

(گزشتہ پوسٹ میں 6 ناظمين ومدیرالتعلیم کا تذکرہ کیا گیا ہے باقی کا زیرنظرہے )
مولانا محمد اسحاق چیمه رحمہ اللہ
مولانا محمد اسحاق چیمہ رحمہ اللہ کے آباؤ اجداد سمبڑیال کے قریب گاؤں ملکھاں والہ سے لائل پور کے قریب چک نمبر 262 میں آکر آباد ہوگئے۔ ان کی ولادت 15مئی 1921ء ملکھاں والا ضلع لائل پور میں ہی ہوئی۔ مولانا چیمہ صاحب نے ابتدائی تعلیم
گاؤں میں حاصل کی۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے متعدد جید علماء کرام سے استفادہ کیا۔ اور باقاعدہ سند فراغت حاصل کی۔آپ شروع میں ہی بہت ذہین اور ہوشیار تھے۔ مجلسی گفتگو کے شہوار تھے۔ معاملہ فہم اور قوت فیصلہ کے مالک تھے۔ فورا بات کی طےکو پہنچ جاتے۔ اور دوسروں کی بات کا جواب ایسے سلیقے سے دیتے تھے۔ کہ جس میں کام بھی
بن جاتا اور بات کرنے والامحسوس بھی نہ
کرتا۔آپ ایک عرصہ تک تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ بہت کامیاب مدرس تھے۔ آپ کے شاگردوں کا بڑا وسیع حلقہ تھا۔کاروبار میں بھی وقت دیتے تھے۔ لیکن جماعتی ذمہ داریوں سے کبھی غافل نہ ہوئے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کی مجلس عاملہ نے جامعہ سلفیہ کے لیے آپ کا
انتخاب کیا تھا۔ جامعہ سلفیہ کے ابتدائی دور میں آپ نےاحباب کے ساتھ ملکر جامعہ کی تعمیر وترقی کے لیے بہت محنت کی۔ اور طلبہ کے لیے رہائشی کمرے تعمیر کیے۔ آپ بلا ناغہ جامعہ میں تشریف لاتے ۔ بعض عربی ادب کی کتابیں پڑھاتے۔ اور باقی وقت تعلیمی و انتظامی امور سر انجام دیتے تھے۔
مولانامحمد اسحاق چیمہ رحمہ اللہ نے بہت متحرک زندگی گزاری۔ ان کی زندگی کا یادگار کام مرکزی جمعیت اہلحدیث کے دو دھڑوں میں صلح کروانا ہے۔ جس میں
ایک طرف ان کی ذات تھی ۔ جنہوں نے علامہ احسان الی ظہیر گروپ کی نمائندگی کی۔ جب کہ دوسری طرف لکھوی گروپ کی نمائندگی میاں فضل حق رحمہ اللہ نے کی تھی۔ اور ان دونوں شخصیات کی مساعی سے آج تمام اہل حدیث مرکزی جمعیت اہل حدیث کے مضبوط پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ جواہل حدیث حضرات کی حقیقی نمائندہ جماعت ہے۔ مولانا محمد اسحاق چیمہ رحمہ اللہ نے 23 مارچ 1993 بمطابق 29 رمضان المبارک نماز تراویح کے بعد حرکت قلب بند ہونے سے رحلت فرما گئے۔ اور اپنے آبائی گاؤں میں دفن ہوئے۔
شیخ الحدیث حافظ ثناء الله مدنی رحمہ اللہ
مولاناابو حفص عثمانی رحمہ اللہ کےبعد 1978ء میں حافظ صاحب رحمہ اللہ مدیرالتعلیم مقرر ہوئے۔حافظ ثناء اللہ مدنی رحمہ اللہ 1940ء کو بمقام کلس ضلع قصور میں پیدا ہوئے
آپ نے جامعہ سلفیہ کے نظم ونسق میں توازن پیدا کیا۔ آپ کے عہد میں سب سے زیادہ طلبہ مدینہ یونیورسٹی قبول ہوئے۔ آپ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر توجہ دیتے ۔ اور قانون شکنی پر شدید مواخذہ کرتے تھے۔ آپ کی شخصیت بہت باوقار اور بارعب تھی۔ جس کے باعث طلبہ آپ کا بہت احترام کرتے اور قواعد وضوابط کی پابندی کرتے۔ آپ خود دفتر میں نہیں بیٹھے تھے۔ شروع میں مولانا محمد یاسین ظفر حفظہ اللہ ناظم دفتر مقرر
ہوئے۔تمام دفتر امور وہ سر انجام دیتے ۔مگر دستاویزات پر حضرت حافظ صاحب بطور مدیرالتعلیم دستخط کرتے تھے۔ پروفیسر یسین ظفرحفظہ اللہ 1978ء میں اعلی تعلیم کے لیے سعودی عرب روانہ ہوگئے۔ تو ان کی جگہ مفتی عبد الحنان حفظہ اللہ تشریف لے آئے۔ جو کہ 1982 تک حضرت حافظ ثناء اللہ مدنی رحمہ اللہ1981میں لاہور چلے گئے۔
پھر جامعہ رحمانیہ لاہور میں تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے۔
پروفیسر عبیدالرحمن مدنی رحمہ اللہ
مولانانے کامونکی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اور اعلی تعلیم مدینہ یونیورسٹی میں مکمل کی۔ ایم اے عربی پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔
میاں فضل حق رحمہ اللہ نے جب 1970ء میں مدینہ یونیورسٹی کا دورہ کیا۔ تو آپ کی ملاقات پروفیسر مرحوم سے ہوئی۔ جن کی وساطت سے آپ الشیخ ابن باز رئیس الجامعہ الاسلامیہ سے ملےاور جامعہ سلفیہ کا مدینہ یونیورسٹی سے الحاق ( معادلہ )ہوا۔ اور انہی کی کوششوں سے الشیخ ابن باز رحمہ اللہ نے جامعہ سلفیہ کے لیے دو اساتذہ کا تقررفرمایا۔
جس کے لیے میاں فضل حق مرحوم نے حضرت مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی اور پروفیسر عبید الرحمن مدنی کے نام تجویز کیے۔ یہ دنوں عالی مرتبت اساتذہ جامعہ میں تشریف لائے۔ تو ان کی کوششوں سے جامعہ سلفیہ کانظم ونسق، نصاب تعلیم اور طریقہ کار تبدیل ہوگیا۔ اس کے بعد عرب اساتذہ کرام تشریف لائے۔ جن کوششوں سے جامعہ کے
نصاب میں انقلابی تبدیلیاں کی گئی۔ جن کے اثرات پاکستان بھر سے تعلیمی اداروں پر ہوئے۔
پروفیسر عبید الرحمن بہت منتظم اور عالی ہمت مدیرالتعلیم تھے۔ دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی علوم پر بھی مہارت رکھتے تھے۔ خصوصا عالم اسلام سے باخبر تھے۔ اور مسلمانوں کی زبور حالی پر ہمیشہ دل گرفتہ رہتے تھے۔اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کےلیے تحریکی جماعتوں کی حمایت کرتے تھے۔ طلبہ کی بھی فکری اور نظریاتی تربیت کرتے ۔ اور
عالم اسلام کے ممتاز اسلامی قائدین کے احوال اور ان کی تحریکی کتابوں کے مطالعہ پر زور دیتے تھے۔
جامعہ سلفیہ کے طلبہ کو نظم ونسق اور حاضری کا پابند بنانے میں انہوں نے بڑی محنت کی۔ نظام امتحانات میں تبدیلیاں لائے۔ اور جامعہ کا بیرون ملک تعارف کرانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ آپ بہت مخلص مفتی اور دیانتدار تھے۔ جامعہ کی تعمیر وترقی کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ 1976 میں جامعہ سے لاہور منتقل ہوگئے۔ کافی عرصہ تک پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ آپ کی رہائش کامونکی میں تھی ۔ خطبہ جمعہ بھی دیتے تھے۔ آپ کو حرکت قلب بند ہونے سے رحلت فرماگئے۔
شیخ الحدیث حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ
حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ جماعت اہل حدیث کے ممتاز عالم دین اور روحانی پیشوا مولانا یحیی شرقپوری رحمہ اللہ کے بڑے صاحب زادے ہیں۔ دینی تعلیم کے لیے آپ نے جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ کا انتخاب کیا۔ جہاں آپ نے اپنے وقت کے ممتاز اساتذہ مولانا ابوالبرکات رحمہ اللہ سے حدیث اور مولانا محمد اعظم صاحب سے ادب کی کتب پڑھیں ۔ آپ کے رفقاء میں متاز دانشور مولانامحمود احد میر پوری مرحوم شامل تھے۔ جن کی محبت نے آپ میں کتب بینی کا شوق پیدا کیا۔ بخاری شریف محدث عصر حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ اس سے پڑھی ۔ اس کے بعد آپ جامعہ سلفیہ تشریف لائے۔ اور آخری کلاس میں داخل ہوئے۔ اورآپ کے ہم سبق حضرت عبد الحمید ازهر اللہ رحمہ اللہ(خطیب راولپنڈی ) بھی تھے۔ یہاں آپ نے حضرت عبداللہ بڈھیمالوی رحمہ اللہ سے اہم درسی کتب اور دوبارہ بخاری شریف پڑھی۔ سالانہ امتحانات میں نمایاں کامیابی پر آپ اور حافظ عبد الحمید ازھر
رحمہ اللہ کاداخلہ مدینہ یونیورسٹی ہوا۔ یہ پہلے طالب علم تھے۔ جو جامعہ سلفیہ سے مدینہ یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ حافظ صاحب وفقہ اللہ 1981سے 1985 تک جامعہ میں مدیر التعلیم رہے۔ آپ میں بے پناہ خوبیاں ہیں۔ آپ صالحیت اور
صلاحیت کے اوصاف حمیدہ سے بہرہ ورہیں۔ بہت عمدہ گفتگو کرتے ہیں۔ اور آپ کی تحریر رقع ادب ہوتی تھی ۔ بہت نرم دل اور مشفق ہیں ۔ جامعہ سلفیہ کے نظم ونسق کو بہتر بنانے میں آپ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور 1985 کو آپ جامعہ
ابی بکرکراچی تشریف لے گئے ۔ چند سال بعد دوبارہ بطور شیخ التفسیر جامعہ سلفیہ تشریف لے آئے ۔
ڈاکٹر حافظ عبد الرشيد اظهر رحمہ اللہ
یکم فروری1953ءکو بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ حافظ صاحب نے اپنے گاؤں کے ایک نابینا شخص حافظ عبدالغنی رحمہ اللہ سے قرآن حفظ کیا ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی چار سال تک خانیوال کے مدرسہ سعیدیہ سے تعلیم حاصل کی پھر فیصل آباد میں جامعہ سلفیہ سے چار سال تک تعلیم حاصل کی ان کے اساتذہ میں حافظ عبداللہ بڈھیمالوی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں 1972 میں جامعہ سے سند فراغت حاصل کی بعدازاں چھ سال تک مختلف دینی مدارس میں تدریسی خدمات سرانجام دیں۔ حافظ عبدالرشید رحمہ اللہ نے میاں فضل حق رحمہ اللہ اور حافظ ثناءاللہ مدنی رحمہ اللہ کے حکم پر جامعہ سلفیہ میں تصنیف وتالیف کا شعبہ بھی قائم کیا ڈاکٹر صاحب درس و تدریس اور تقریر خطابت کے میدان میں خاص مقام رکھتے تھے جامعہ کے مدیر تعلیم بھی رہے۔
17 مارچ 2012ءکو مالک حقیقی سے جاملے۔
پروفیسر محمد یسین ظفر حفظہ اللہ (پرنسپل جامعہ سلفیہ)

یکم جنوری (1956ء) کو ملائیشیا کے دار الحکومت کو الالمپور میں پیدا ہوئے ۔ ابھی تعلیم کا آغاز ہی تھا کہ( 1963ء) میں ان کے والد چوہدری فتح محمد اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئے ۔ اور چک نمبر ٩٥گ۔ب بانوان جمشیر (تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد) میں قیام پذیر ہوئے۔ مولانا یسین صاحب نے پرائمری تک کی تعلیم گاؤں میں حاصل کی اور مڈل درجہ اول میں چک نمبر ٩.٨گ ۔ب میں پاس کیا۔ مولانا یسین صاحب کے والد احناف کے دیوبند مسلک سے تعلق رکھتے تھے ۔ بیٹے نے مڈل پاس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تو انہوں نے اسے دینی تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا۔ اور فیصل آباد کے مدرسہ دار القرآن والحدیث میں داخل کروا دیا۔ مدرسہ کے مہتم حضرت مولانا عبد اللہ ودیرووالولی مرحوم نے انہیں بخوشی داخلہ دے دیا ۔ مولانا یسین صاحب نے پانچ سال اس مدرسے میں تعلیم حاصل کی۔ پھر جامعہ سلفیہ میں حصول تعلیم کے لیے داخل ہوگئے۔ اس وقت جامعہ کےصدر میاں فضل حق صاحب تھے۔ اور ان کی کوششوں سے جامعہ سلفیہ کاالحاق مدینہ یونیورسٹی سے ہوگیا تھا۔(1977ء) میں یسین صاحب نے جامعہ سے فراغت حاصل کی۔ حافظ ثناءاللہ مدنی رحمہ اللہ کی وساطت سے انہیں جامعہ کا ناظم لائبریرین مقرر کیاگیا۔ اور ساتھ ہی وہ جامعہ میں ابتدائی درجوں کے طلباء کو پڑھانے لگے ۔ بعد ازاں پروفیسر یسین ظفر صاحب کو جامعہ کا ناظم بنادیا گیا۔ ایک سال انہوں
نے یہ فریضہ سرانجام دیا۔ پھر (1978ء) میں انہیں مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا، اور وہ مدینہ چلے گئے۔ مدینہ یونیورسٹی میں انہوں کلیۃالدعوۃ واصول الدین میں داخلہ ملا۔اسی دوران ۱۹۸۰ء میں مصر کا مطالعاتی سفر کیا اور ڈیڑھ مہینہ
قاہرہ میں گزارا ۔ وہاں بےشمار اہل علم سے ملاقات کے مواقع میسر آئے ۔
(1982ء) میں مدینہ یونیورسٹی کا نصاب مکمل کیا اور سند لیا۔ تو مولانا محمود احمد میر پوری مرحوم اور مولانا عبدالکریم ثاقب کی کوشش سے بطور مبعوث برطانیہ میں ان کا تقرر ہوا۔ لیکن ابھی تقرری کے کاغذات تیار ہورہے تھے اتفاقاً میاں فضل حق مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے واپس جامعہ سلفیہ میں آنے کا حکم دیا ۔برطانیہ جانے کا معاملہ ختم ہوا اور مولانا یسین ظفر صاحب دسمبر1982ءمیں فیصل آباد جامعہ سلفیہ آگئے۔ اس وقت جامعہ کے مدیر التعلیم حافظ مسعود عالم صاحب تھے۔ پھر جامعہ سلفیہ کی کمیٹی کااجلاس حاجی سردارمحمد رحمہ اللہ کے مکان پر منعقد ہوا۔تو جامعہ کے نئے مدیر التعلیم کے تقرر سے متعلق بھی غورہوا۔ اس کے لیے میاں فضل حق رحمہ اللہ نے پروفیسر یسین ظفر حفظہ اللہ کا نام پیش کیا ۔جس کی تمام ارکان نے تائید کی اور تعاون کا یقین دلایا۔ یسین صاحب عرصہ تقریباً 40سال سے اس منصب پر فائز ہیں اور بہترین طریقے سے خدمات سر انجام دےرہےہیں ۔ اس کے علاوہ تدریس کافریضہ بھی ادا کر رہے ہیں ۔ وہ اسلام ، الادیان و الفرق الضالہ، اسلام کا اقتصادی نظام، کتاب التوحید،فقہ، سیرة اور السياسة الشرعیہ کے اسباق طلباء کوباقاعدگی
سے پڑھار ہے ہیں ۔ اس کے علاوہ پروفیسر صاحب (1988ء) سے مسلسل سعودی عرب کا دورہ کررہے ہیں ۔ ان دوروں میں انہوں نے وہاں کی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں اور یونیورسٹیوں سے جامعہ کا تعارف کرایا ۔ اور اس کی تعمیر وترقی کے لیے تعاون حاصل کیا۔ پروفیسر یسین صاحب جامعہ کے سلسلے میں دومرتبہ کویت اور عرب امارات بھی گئے۔ بطور مدیر التعلیم انہوں نے جامعہ کی بڑی خدمت کی ۔ ان کے عہد میں نظم ونسق قائم ہوا۔ جامعہ کا تعلیمی معیاد بلند ہوا۔ جامعہ کی پرانی عمارت مہندم کر کے نئی شاندار عمارت بنائی گئی۔ جدید تعلیم کے حصول کا انتظام کیا گیا ۔ امتحانات میں باقاعدگی ہوئی۔ طالب علم کے فارغ التحصیل ہوتے وقت کسی بھی موضوع پر مقالہ لکھنا ضروری قراردیا گیا ۔ وفاق المدارس السلفیہ کے امتحانات کا سلسلہ باقاعدگی سے شروع ہوا۔ اس کے بعد اس کا مرکزی دفتر جامعہ میں منتقل کیاگیا۔ اس کے ناظم بھی مولانا یسین صاحب ہیں۔ انہوں نے سرکاری وغیر سرکاری
تعلیمی اجلاسوں میں اس کی نمائندگی کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔
جامعہ کی طرف سے مختلف اوقات میں علمی مجلے بھی شائع ہوتے رہے۔
(ماخذ: جامعہ سلفیہ تاریخ کے آئینہ میں
مرتب: حافظ فاروق الرحمن یزدانی حفظہ اللہ )

●ناشر: حافظ امجد ربانی
●متعلم:جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھیں: جامعہ سلفیہ کے سابقہ ناظمين ومدیر التعلیم کا مختصر تعارف