سوال (996)

ایک ساتھی جماعت کے ساتھ تین وتر کی نیت سے شامل ہوتا ہے اور امام صاحب بنا بتائے معمول سے ہٹ کر ایک وتر پڑھا دیتے ہیں۔ وہ ساتھی نماز کے دوران ہی نیت بدل لیتا ہے۔ پھر تسلی کے لیے وہ وتر دہرا بھی لیتا ہے۔ کیا اس کا وتر دہرانا درست ہے یا جماعت کے ساتھ پڑھا ہوا وتر درست تھا ؟؟

جواب

اس کا امام کی اقتداء میں ایک وتر ادا کر لینا درست تھا۔ تاہم اس نے اپنی تسلی واطمینان کی خاطر وتر دھرا لیا تو کوئی حرج نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

بہتر یہ کہ ہے آئمہ کو بتا دینا چاہیے تاکہ نیت اور عمل موافق ہو جائے۔
(1) : اصل وتر کی نیت لازم ہے اس کے بغیر وتر نہیں ہوتا ہے۔
(2) : آپ کی بتائی گئی صورت حال میں یہ ہے کہ امام کی موافقت کرے اور یہ کافی ہے۔
اگرچہ نیت مختلف ہے ، دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
(3) : اس بحث کی کئی اشکال ہیں اور بعض میں خاصہ اختلاف ہے۔ آپکی صورت حال کا جواب مذکور ہوا باقی اپنی حالت کے مطابق استفسار کریں۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

جو مل جائے اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے پورا کرو ، اس لئے وہ اپنی تیسری رکعت پوری کرے ، اگر 3 وتر کی نیت ہے۔ اور اگر آخری میں ملا ہے اور ایک وتر کی نیت ہے اور معلوم نہیں کہ امام اکٹھے 3 پڑھا رہا ہے یا سلام کے بعد الگ ایک رکعت پڑھا ہے ، ایسی صورت میں امام کے ساتھ سلام پھیر دے ، اور اگر معلوم ہے کہ امام نے 3 اکھٹے پڑھےہیں تو مذکورہ بالا حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اٹھ کر 2 رکعت مزید پڑھے(کما قال ابن العثیمین)واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ