سوال (4242)

ہم قرآن کریم کو پڑھتے وقت دو بنیادی غلطیاں کرتے ہیں، ایک یہ کہ اس کے انداز بیاں کو سمجھئے بنا پڑھتے ہیں، دوسرا اس لاعلمی کے نیتجے میں قرآن کو لفظی ترجمے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ اس کا انداز بیاں تمثیلی استعاراتی ہے۔ درج زیل مثال سے یہ بات واضح ہو جاے گی کہ قرآن میں چور اور چورنیوں کی سزا کا کوئی ذکر نہیں ہے نیز یہ بات بھی ثابت ہو جاے گی کہ قرآن کو اپنی وضاحت کے لیے لمبی چوڑی تاویلات بر وزن اسرائیلیات کی ہر گز کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جن کے ذریعے تفسیر کے نام ہر قرآن کو ایک بے ربط کلام اور ایک معمہ بنا دیا ہے۔ اور قرآن کا دعویٰ ہے کہ یہ سمجھنے کے لیے بہت آسان کر دیا گیا ہے۔ لغت کی ضرورت اس لیے پڑ سکتی ہے کہ ہم پیدائشی عرب ہیں اور نا ہی ہمارے پاس فلحال ایسی کوئی ٹیکنالوجی ہے کہ غیر عربوں کو بنا درست ترجمہ کے عربی سمجھا سکیں یا خود عربی کو عربوں کی طرح سمجھ سکیں۔ ہاں ترجمہ اگر غلط ہو یا کسی کی ذاتی راے یا فہم کو قرآن کے مترادف قرار دیا جاے تو تب اعتراض بنتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عربوں کو بھی اردو کے معاملے میں یہی مسلہ درپیش ھو گا یہ اللہ کی بنائی ھوئی فطرت ھے کیا کیا جا سکتا ہے۔ آپکی تشفی کے لیے عرض ھے کہ وضاحت کے لیے عام مروجہ ترجمہ ہی استعمال کیا گیا ہے۔
موضوع کی طرف آتے ہیں چور کی سزا کے لیے سورہ المائدہ کی آیت 38 کا حوالہ دیا جاتا ھے۔ ملاحظہ ہو:

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُـوٓا اَيْدِيَـهُمَا جَزَآءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّـٰهِ ۗ وَاللّـٰهُ عَزِيْزٌ حَكِـيْـمٌ (38)

اور چور خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کی کمائی کا بدلہ اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ہے، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔
سورہ المائدہ کا موضوع اللہ سے کیے ہوے عہد کی پاسداری یعنی اسکے احکامات کی اطاعت اور اتباع اور انسے انحراف کرنے کی مذمت ھے۔ بیان کرنے والا اللہ ھے۔ یہ تو ھوا سورہ کا سیاق سباق۔
حوالہ کی آیت سے چند آیات کی پیچھے چلے جائیں۔ آیت 13 میں اللہ کے احکامات میں بذریعہ تاویل و تفسیر تبدیلی کرنے والوں کو خائن یعنی حیانت کرنے والا قرا دیا گیا ہے۔

فَبِمَا نَقْضِهِـمْ مِّيْثَاقَهُـمْ لَعَنَّاهُـمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَـهُـمْ قَاسِيَةً ۚ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ ۙ وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰٓى خَآئِنَـةٍ مِّنْـهُـمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْـهُـمْ ۖ فَاعْفُ عَنْـهُـمْ وَاصْفَحْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْن(13)

پھر ان کی عہد شکنی کے باعث ہم نے ان پر لع نت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا، وہ لوگ کلام کو اس کے ٹھکانے سے بدلتے ہیں، اور اس نصیحت سے نفع اٹھانا بھول گئے جو انہیں کی گئی تھی، اور تو ہمیشہ ان کی کسی نہ کسی خیانت کی اطلاع پاتا رہے گا مگر ان میں سے کچھ کے علاوہ، سو انہیں معاف کر اور درگزر کر، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
یہاں خیانت سے مراد یقیناً اللہ کے احکامات میں تبدیلی اور انپر عمل نا کرنا ہے! یہ کوئی مال دولت کی خیانت نہیں ہے۔
پھر اسی موضوع پر آگے بڑھتے ھوے آیت 16 میں اللہ فرماتا ہے کہ۔

يَـهْدِىْ بِهِ اللّـٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٝ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُـمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَيَـهْدِيْـهِـمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ (16)

اللہ اسلام ( یعنی سلامتی) کی راہیں دکھاتا ہے اسے جو اس کی رضا ( یعنی احکامات ) کا تابع ہو، اور ایسے لوگوں کو اپنے حکم سے (جہالت کے) اندھیروں سے (علم و آگاھی اور ھدایت کی) روشنی کی طرف لاتا ہے، اور انہیں سیدہی راہ پر چلاتا ہے۔
اسی طرح آگے بڑھیں تو آیت 33 ا میں فسادیوں کے بھی ھاتھ پاؤں کاٹ ڈالنے کی سزا سنائی گئی ہے۔

اِنَّمَا جَزَآءُ الَّـذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ وَيَسْعَوْنَ فِى الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوٓا اَوْ يُصَلَّبُـوٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْـهِـمْ وَاَرْجُلُـهُـمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ۚ ذٰلِكَ لَـهُـمْ خِزْىٌ فِى الـدُّنْيَا ۖ وَلَـهُـمْ فِى الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْـمٌ (33)

ان کی بھی یہی سزا ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے ہیں یہ کہ انہیں قتل کیا جائے یا وہ سولی پر چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹے جائیں یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں، یہ ذلت ان کے لیے دنیا میں ہے، اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
سوال یہ ھے کہ یہ فسادی کون ہیں؟۔ جواب یہ ھے کہ یہ اللہ اور رسول کے احکامات کی مخالفت کرنے والے ھیں!۔ اسطرح ھر آیت دوسرے آیت کی وضاحت کرتی ھوئی اس موضوع کو آگے بڑھاتی جاتی ھے۔ لیکن پھر اچانک چور اور چورنیوں کا ذکر جاتا ھے!۔ کیا یہ مال دولت چوری کرنے والے چوروں کی بات ھو رھی ھے؟۔ اگر ایسا ھے تو یہ بڑی حیرت کی بات ہے کیونکہ تب یہ آیت موضوع سے قطعاً میل نہیں کھاتی اور نا ھی اس حکم کی یہاں کوئی تک بنتی ہے!۔
یقیناً یہاں چور انہی کو کہا گیا جنہیں پچھلی آیات میں خائن اور فسادی کہا گیا ھے۔ یعنی اللہ کے احکامات میں رد بدل کرنے والے انکی مخالفت کرنے والے اور انکا ک ف ر کرنے والوں کو یہاں چور قرار دیا گیا ھے۔ دین کے چور جیسا کہ کام چور ہوتے ہیں!
اس بات کی وضاحت اگلی آیت سے ھو جاتی ھے اور ساری بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔

فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللّـٰهَ يَتُـوْبُ عَلَيْهِ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ (39)

پھر جس نے اپنے ظلم کے بعد توبہ کی اور اصلاح کرلی تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا، بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اس آیت میں اس عمل کو ظلم قرار دیا جا رھا ھے جسے پچھلی آیت میں چوری کہا گیا ہے!۔ جبکہ قرآن میں ظلم اللہ کی حدود یعنی اسکے احکامات سے تجاوز کرنے کو کہا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ آیت 22
محترم شیوخ کرام کسی بہن کا یہ سوال ہے اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے پلیز
جزاکم اللہ خیرا و بارک اللہ فیکم

جواب

تحریر میں لفاظی سے کام لیا گیا ہے، اس کے علاؤہ کئی ابہامات ہیں، یہ بھی نہیں معلوم کہ صاحب تحریر کا عقیدہ اور منھج کیا ہے، بظاہر مرزائیت اور غامدیت کی بو آ رہی ہے، دین اسلام کے بارے میں مطلقاً کہنا کہ استعارے کی زبان ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقۡطَعُوۡۤا اَيۡدِيَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَـكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ” [سورة المائدة : 38]

«اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے»
اس آیت کی عملی وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے، دوسری تعبیر کرنا کفر ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ