آج وقت کے جلادوں اور فرعونوں نے غزہ کو بھسم کر کے رکھ دیا ہے، غزہ میں فلک شگاف چیخیں ہیں، دلوں کو چِیر دینے والی آہیں ہیں، قیامت سے مماثل ایسے ہولناک مناظر ہیں جنھیں دیکھ کر چشمِ فلک بھی سہم گئی ہو گی۔اسرائیلی میزائلوں نے ہزاروں معصوم فلسطینی بچوں کے جسموں کو ادھیڑ کر رکھ دیا، سفاک یہودیوں نے بموں اور میزائلوں سے یلغار کر کے مسلم اُمّہ کے مظلوم لوگوں کے وجود کی دھجیاں بکھیر ڈالیں، آج غزہ کو کھنڈر بنایا جا رہا ہے، زمین بوس ہوئے غزہ کے در و دیوار، مسلم حکمرانوں کی سنگ دلی اور شقی القلبی پر نوحہ کناں ہیں۔فلسطینی بچوں کے ادھڑے اور لیر و لیر جسموں کو دیکھ کر 57 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے تخیّل میں رتی برابر ملال بھی پیدا نہ ہو سکا، خون اور زخموں سے اٹے اہلِ فلسطین کے وجود دیکھ کر بھی مسلم حکمرانوں کے دل کی دھڑکنوں میں خفیف سا ارتعاش بھی جنم نہ لے سکا، مَیں بہ بانگِ دہل کہوں گا کہ ہزاروں فلسطینی بچوں کی گلی سڑی لاشوں کے مجرم یہ سارے مسلم حکمران ہیں۔حمیت نام تھا جس وہ تیمور کے ہی گھر سے نہیں گئی، آج کے تمام سیاست دانوں کے دلوں سے بھی رخصت ہو چکی ہے۔بدرالحسن بدر کا شعر ہے:-
یہ سڑی لاشوں کی بدبو اور یہ شعلوں کا رقص
ہے زمیں پر آج کس کی حکمرانی، کیا لکھوں؟
روس اور یوکرائن جنگ میں بچوں کے قتل عام پر اودھم مچا دینے والوں کو آج غزہ کے خونیں مناظر نظر کیوں نہیں آ رہے؟ غزہ میں ہسپتال پر بم باری کر کے سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا، لیکن عالمی برادری ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہیں، او آئی سی کے کردار کو بھی غلیظ ہی کہا جا سکتا ہے، اس لیے کہ فلسطینیوں پر اتنی سربریت دیکھ کر بھی او آئی سی کے دل کے مضافات میں بھی کوئی ایک ہی ترحمانہ لہر پیدا نہیں ہو سکی۔اسرائیلی بم باری میں فلسطین کی معروف ناول نگار اور شاعرہ ” حبا کمال ابو ندا “ بھی شہید ہو گئیں، 1991 ء میں سعودی عرب میں مقیم بیت جرجا کے ایک فلسطینی پناہ گزین خاندان میں پیدا ہونے والی 31 سالہ حبا کمال ابو ندا کے وجود کو بموں سے بھون دیا گیا۔اس کا خاندان 1948 ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران صہیونیوں کی جانب سے جبری طور پر بے گھر کیا گیا تھا۔حبا ابو ندا نے ” آکسیجن از ناٹ فار دا ڈیڈ “ نامی ناول لکھا تھا.اس نے گذشتہ روز ہی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا تھا کہ ” اگر ہم شہید ہو جائیں تو جان لیں کہ ہم ثابت قدم ہیں اور ہم سچے ہیں “ اسرائیل، فلسطینیوں کی نسل مٹا رہا ہے۔مسلم ممالک رسمی سی مذمت سے آگے بڑھ کر جراَت مندانہ کردار ادا کرنے سے بالکل اپاہج اور معذور ہو چکے ہیں، اہلِ فلسطین کی آنکھوں میں ویرانیاں اتر آئی ہیں، اُن کے دل بنجر اور سنسان ہو چکے ہیں، اسرائیل کی اس سفاکیت پر دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل سلگ رہے ہیں۔فریحہ نقوی کا شعر ہے:-
تمھارے رنگ پھیکے پڑ گئے ناں؟
مری آنکھوں کی ویرانی کے آگے
غزہ میں اموات بڑھ رہی ہیں۔ امریکا بھی اپنا بحری جہاز بھیج کر اسرائیلی جارحیت میں اس کے ساتھ شریک ہو چکا ہے۔دنیا کے امن کو تاراج کرنے کے لیے ایک نئی جنگ میں جھونک دیا گیا ہے۔یہ جنگ مشرق وسطیٰ کا نقشا بدل کر رکھ دے گی۔
فلسطینی مسلمانوں پر سفاکیت اور درندگی کو مزید تیز کرنے کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن 18 اکتوبر کو خود تل ابیب میں بین گوریون بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچا اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو جنگ مزید تیز کرنے کا عندیہ دیا۔
بدترین صحافتی بد دیانتی کرتے ہوئے امریکی میڈیا بھی منفی پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے، غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی کی تصاویر دیکھ کر کلیجا شق ہونے لگتا ہے مگر مغربی میڈیا حماس ہی کو ظالم کَہ رہا ہے، حماس کے پاس فوج نہیں، اس کے پاس دندناتے ٹینک نہیں، اس کے پاس چیختے چنگھاڑتے جنگی جہاز نہیں، اس کے پاس بحری آب دوز نہیں مگر اس کے باوجود وہ ایک خناس طاقت کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ان کے سامنے ان کے جگر گوشوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دیے گئے، ان کے ادھڑے اور اجڑے پچڑے وجود کے ذمہ دار دراصل مسلم حکمران ہیں۔ بل گیٹس کو پوری دنیا کے بچوں کا پولیو سے معذور ہونے کا غم ہے مگر غزہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے مسلمان بچوں کی کوئی فکر نہیں۔آج فلسطینی بچوں کی آنکھیں دہشت زدہ ہیں، ان کی آنکھوں میں ایسے درد اور زخم اتر آئے ہیں کہ جن کا مداوا کبھی ہو ہی نہیں سکتا، کتنے ہی بچوں کے والدین اس جنگ کا ایندھن بن گئے اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ شاید ان کے بابا کھلونے لے کر لوٹ آئیں گے، ان کی ڈھارس بندھانے والا اس کرہ ء ارض پر کوئی نہیں۔اجے سحاب کا شعر دیکھیے!
کاش! لوٹیں مرے پاپا بھی کھلونے لے کر
کاش! پھر سے مرے ہاتھوں میں خزانہ آئے۔

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )