ڈاکٹر سبیل اکرام صاحب!
مدارس اور مساجد کے حوالے سے چونکہ آپ نے سوشل میڈیا پر اپنے موقف کو بیان کیا ہے لہذا میں بھی الدین النصیحہ کے مصداق آپ کو سوشل میڈیا پر ہی نصیحت کرنا چاہتا ہوں امید ہے اسے خیر خواہی پر محمول کریں گے
01) عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه ” (2317 ترمذی)
ابو ھریرۃ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لا یعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے“
سب سے پہلے تو اس حدیث کو سمجھ لیں کہ آپ ان موضوعات پر بات نہ کیا کریں جن کی بابت آپ کے پاس مکمل علم نہیں یا جو آپ کا مجال نہیں ہے آپ خود اپنے مجالات کو بہتر جانتے ہیں۔ مدارس یا مساجد کبھی بھی آپ کے مجالات نہیں رہے آپ کا تراویح پڑھانا یا نماز پڑھانا اس بات کی دلیل یا جواز نہیں کہ آپ مدارس یا مسجد پر لا یعنی تنقید شروع کر دیں
02) سچ کڑوا نہیں ہوتا بلکہ سچ کہنے کا انداز کڑوا ہوتا ہے جو سچ کو بھی متاثر کرتا ہے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مدارس یا مساجد کے نظام میں خامیاں ہیں تو آپ سوشل میڈیا پر سیاسی انداز میں شدید تنقید کر کے اصلاح کر رہے ہیں یا مزید بگاڑ اور فساد کا سبب بن رہے ہیں کیوں کہ میری معلومات کی حد تک پاکستان کے اکثر مدارس کے مہتمم حضرات کا سوشل میڈیا کا استعمال بہت کم ہے بلکہ بہت ہی زیادہ کم ہے۔ تو کیا بہتر نہیں کہ آپ ایک وفد بنائیں اور مختلف مدارس جائیں وہاں مہتمم حضرات سے ملاقات کریں اور ان کے سامنے اپنی تجاویز مثبت انداز میں رکھیں یوں سوشل میڈیا پر سیاسی انداز میں چیخنا چلانا اور نقد کرنا کبھی بھی فائدہ نہیں دے گا بلکہ اصلاح تودورکی بات اس کا سب سے زیادہ نقصان آپ کو خود ہو گا۔ لہذا بات کہنے کا نبوی انداز سیکھیں ورنہ خاموش رہیں کم از کم من صمت نجا پر تو عمل ہو ہی جائے گا۔
03) مدارس اور مساجد کے نظام میں اصلاح کے حوالے سے جو طریقہ سب سے زیادہ مناسب اور بہتر ہوتا وہ یہ تھا کہ آپ مدارس اور مساجد کے مہتمم اور متولی حضرات سے ان کے مسائل جاننے کی کوشش کریں تاکہ آپ کو درست معلومات مل سکیں آپ کی باتوں سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو کسی مدرسہ یا مسجد کے مسائل کا حقیقی انداز میں علم ہی نہیں ہے محض سنی سنائی باتوں پر آپ سوشل میڈیا کا میدان گرم کر رہے ہیں۔
04) حکمت کا تقاضا تو یہی ہے کہ مشرف کے دور سے بالخصوص جس طرح عالم مغرب و کفر مدارس اور مساجد کے خلاف منظم انداز میں مہم چلا رہا ہے آپ لاشعوری طو رپر اس کا حصہ نہ بنتے اگر میری بات پر یقین نہیں آتا تو ہر وہ پوسٹ جہاں آپ کے اس موقف کا ذکر خیر ہو رہا ہے وہاں مدارس اور مساجد کے خلاف خرافاتی گفتگو کے حاملین کا جائزہ لے لیں کہ کس طرح آپ نے ان لوگوں کو ایک موقع دیا۔ میں ہمیشہ اپنے طلباء کو کہتا ہوں کہ آپنی پوسٹ کے کمنٹس سے سیکھا کریں کہ آپ کن لوگوں کو کیا دے رہے ہیں آپ کی پوسٹ کے کمنٹس ہی بتا دیں گے کہ آپ کی پوسٹ میں خیر ہے یا شر ، تو آپ کو بھی نصیحت ہے کہ جب موقع ملے اپنے انٹرویوز کی پوسٹیں کے کمنٹس پڑھیں تاکہ آپ کو علم ہو سکے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں۔
05) “مدارس اور مساجد مانگنے کی تعلیم دیتے ہیں” جانے آپ نے کون سے مدرسہ کا نصاب یا اساتذہ کو یہ سکھاتے ہوئے سنا یا دیکھا جو آپ نے تمام مدارس پر یہ الزام لگا دیا کہ مدارس مانگنا سکھاتے ہیں ۔ افسوس صد افسوس میں پاکستان کے بے شمار مدارس بلا تخصیص و تفریق مسلک کو جانتا ہوں ان کے اساتذہ و مشائخ کو بھی جانتا ہوں آج تک یہ بات میرے علم میں نہیں آئی کہ کسی مدرسہ یا مسجد نے اپنے طلباء کو اس کام میں مصروف کیا ہو، یہ آپ نے دعوی کیا ہے الزام لگایا ہے بار ثبوت آپ پر ہے۔
06) یہ مدارس اسلام کا قلعہ ہیں انگریزوں کی حکومت میں ان کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا دو سو سال ان کی حکومت رہی لیکن وہ بھی مدارس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے خود ختم ہو گئے مدارس آج بھی اسی شان و شوکت سے قائم و دائم ہیں۔ کیا آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ ایسا کیوں ہے ؟ آئیے میں بتاتا ہوں پہلا مدرسہ رسول اللہﷺ نے دار ارقم میں قائم کیا تھا لہذا یہ قیامت تک ان کا سلسلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں ختم کر سکتی۔
07) جہاں تک آپ کی گفتگو کا ایک اور پیغام جو لوگوں تک پہنچ رہا ہے وہ مدارس و مساجد کی مالی حالت سے تعلق رکھتا ہے سب سے پہلے تو آپ اپنی غلط فہمی دور کر لیں کہ مدارس کی طرف رجوع کرنے والے یا وہاں پڑھنے والے غربت کی وجہ سے آتے ہیں یا غریب ہوتے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہے کائنات کے سب سے پہلے مدرسہ میں استاد رسول اللہ ﷺ تھے اور پہلے شاگرد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا رئیس و سید قبیلہ تھے اور آج بھی ایسا ہی ہے مدارس پر اللہ کا فضل ہے کہ یہ امیر و غریب سب کو سمو لیتا ہے خوبیوں اور خامیوں سمیت آج بھی مدارس دنیاوی تعلیمی اداروں کے مقابلے میں اپنی ذمہ داریاں سو فیصد پوری کر رہے ہیں۔ میں الزامی جواب کے طو رپر اگر صرف یہ پوچھ لوں آپ بزنس مین ہیں آپ نے آج تک کون سا بزنس ماڈیول ڈیزائن کیا جو دین کے مطابق ہو اور لوگوں کی رہنمائی کر رہا ہو، آپ تو موجودہ معاشی نظام سے صرف دولت کما رہے ہیں کچھ دے نہیں رہے
08) مدارس و مساجد حکومتی ذمہ داری پر نہیں محسنین کے تعاون سے چلتے ہیں اور محنسین سے تعاون کی اپیل یہ تو رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے قرآن کا حکم ہے تعاونوا علی البر و التقوی اور رسول اللہﷺ کا مختلف مواقع پر مسجد نبوی میں الصلاۃ جامعۃ کی پکار لگانا اور مدد کی اپیل کرنا ، آپ نے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں سوچا کہ آپ مدارس اور مساجد کے اخراجات پورے کرنے کے مدد طلب کرنے کے نظام پر تنقید کرتے کرتے رسول اللہﷺ پر بھی لا شعوری طور پر تنقید کر رہے ہیں کہ یہ نظام انہی کا دیا ہوا ہے۔ میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ مدارس اور مساجد خود کفالتی نظام کی طرف نہ بڑھیں یہ تو ایک مثالی بات ہے لیکن ڈاکٹر صاحب باتیں نہیں کریں کم از کم عملی طور پر مدارس و مساجد میں سے جس کو آپ جانتے ہیں وہاں خود کفالتی نظام کو لانے میں اپنا مال و دولت صرف کریں ، محض باتیں کرنا تو کوئی بھی کر سکتا اور ہم سب یہی ایک کام تو وافر مقدار میں کر رہے ہیں
09) میرا آپ کو مشورہ ہے کہ وقت نکالیں اور باقاعدہ کسی مدرسہ میں تعلیم کے لیے جانا شروع کریں میں حلفا کہتا ہوں کہ کچھ عرصہ بعد آپ کو خود اپنی باتیں غلط نظر آئیں گی۔ کیونکہ مدد مانگنا دنیاوی تعلیمی ادارے ، این جی اوز ، سیاسی جماعتیں ، مذہبی جماعتیں فلاحی تنطیمیں سب یہ کام اپنے اپنے انداز میں کر رہی ہیں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ذرا جدید انداز میں یہ کام کر رہے ہیں تو آپ کی نظر ان پر نہیں گئی
10) آپ کے بہت قرینبی رشتہ مجھے بہت اچھی طرح جانتے ہیں کسی سے بھی میرا نمبر لتے سکتے ہیں مجھ سے کسی بھی وقت رابطہ کر سکتے ہیں ملاقات کر سکتے ہیں میں علماء و مشائخ و مہتمم حضرات سے آپ کی ملاقات کروا سکتا ہوں تاکہ آپ کو مدارس و مساجد کے مسائل کا اندازہ ہو سکے کہ مدارس فی الوقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں حالت جنگ میں ہوتے ہوئے بھی وسائل کی شدید کمیابی کے باوجود بھی الحمدللہ اپنا کام مکمل کر رہے ہیں ملک و قوم کی رہنمائی بھی کر رہے ہیں نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی کر رہے ہیں کمی ہو سکتی ہے خامی ہو سکتی ہے خامی ہو سکتی ہے کیونکہ بشری جہود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:مدارس اسلامیہ سے متعلق چند تجاویز