مدارس اسلامیہ سے متعلق چند تجاویز

عموما جن مدارس کا معیار کمزور ہے اسکے چند اسباب ہیں جو اصلاحی نقطۂ نظر سے یہاں ذکر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ امید کہ اسے احباب مدارس اپنے اوپر لینے کے بجائے اصلاحی تناظر میں سامنے رکھیں گے۔
۱۔ مدارس اسلامیہ کے بڑے اور چھوٹے تمام ذمہ داران ، اساتذہ اور متعلقین کو اپنے اندر اخلاص پیدا کرنا چاہئے، اخلاص کا فقدان کسی بھی چیز کے زوال کا بنیادی سبب ہوتا ہے۔
۲ ۔ مدارس اسلامیہ میں امتحان داخلہ، بقیہ امتحانات، نمبرات کے اندراج کے ضابطہ اور امتحانات کے دیگر متعلقہ ضوابط کو سختی اور عدل پر مبنی ہونا چاہئے۔ اسمیں رعایت اور ناانصافی نظام کے زوال کا بنیادی سبب ہے۔
۳ ۔ مدارس اسلامیہ کے نصاب تعلیم کی مضبوطی نیز گاہے بگاہے نصاب پر ایک تجربہ کار کمیٹی کے ذریعہ تبدیلی اور نصاب کا ممکنہ حد تک حق ادا کرنے والے اساتذہ بھی مدارس کے معیار کے لئے بنیادی عنصر ہیں، لہٰذا اساتذہ کی اچھی تنخواہیں اور مادہ کے متخصص مدرسین کا انتخاب بھی ضروری ہے تاکہ مدرس آسودگی کے ساتھ مادہ کا حق ادا کر سکے۔
۴۔ طلبہ کے اندر علمی لحاظ سے اعتماد نفس اور علمی جرأت پیدا کرنے کے لئے ماہرین کے زیر اشراف ایسے برامج کا اہتمام کیا جانا چاہئے جسکے اندر منہج سلف کی روشنی میں تنوع پیدا کیا جائے، انکے لئے مقالہ نگاری اور تقریر نیز کم از کم عربی، اردو اور انگریزی زبانوں پر قدرت حاصل کرنے کے امکانات پیدا کئے جانے چاہئیں نیز ملکی آئین اور جماعت کی تاریخ اور منہج سلف سے واقفیت اور مہذب وممکنہ کھیل کود کا بھر پور اہتمام کیا جانا چاہئے ۔
۵۔ مدارس اسلامیہ میں داخلہ لینے والے طلبہ وطالبات سے انکے والدین اور سرپرستوں کا بالکل لاتعلق ہو جانا اور سارے امور مدارس کی انتظامیہ کے سپرد کردینا بھی معیار تعلیم وتربیت پر منفی اثرات کا بنیادی سبب ہے۔ لہاذا سرپرستوں کو اپنی ذمہ داری سے بالکل بھی غافل نہیں ہونا چاہئے ۔
۶۔ طلبہ وطالبات کی تعلیم و تربیت سے ذمہ داران اور اساتذہ کا محض درسگاہ تک محدود ہوجانا اور دوسرے اوقات میں بالکل اجنبیت کا رویہ اختیار کر لینا بھی افسوس ناک عمل ہے ، اس سلسلہ میں فرض عین کی ادائیگی کے ساتھ فرض کفایہ کی رعایت رکھنابھی بہت اہم ذمہ داری ہے ۔
۷۔ مدارس اسلامیہ میں برادری یا علاقائیت کو صلاحیتوں پر ترجیح دینا اور اساتذہ کی تقرری نیز دیگر ذمہ داریوں کی تفویض میں قرابت داری اور قربت کو استحقاق پر ترجیح دینا بھی ایک سنگین معاملہ ہے اس سے بھی بالکلیہ اجتناب ہونا چاہئے ۔
۸۔ بلا ضرورت اور کچھ خاص مصلحتوں نیز منہج صحیح کی ترویج کے مقصد وغیرہ کے علاوہ سفارشات اور واسطات سے متعلق بھی ایک مضبوط ضابطہ بنایا جانا معیار کے کنٹرول کے لئے ضروری ہے ، ہر کوئی جب چاہے اور جیسے چاہے نظام میں دخل دیکر جو چاہے کروا لے ، اس سے بھی معیار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
۹۔ تمام مدارس اسلامیہ کا ایک مضبوط دستور العمل ہونا چاہئے جو ماہرین کے ذریعہ تیار کیا جائے اور اسمیں مرور ایام کے ساتھ تجربہ کار کمیٹی ضروری تبدیلی بھی کرتی رہے اور سب سے اہم یہ ہے کہ اس دستورالعمل پر سختی کے ساتھ عمل ہونا چاہئے، کسی کی رعایت یا دباؤ میں اس سے تنازل کر لینا معیار کی پستی کا باعث ہوتا ہے ۔
۱۰۔مالیات اور اکاؤنٹس کا نظام حکومت کے نظام کے تحت صاف ستھرا اور مضبوط ہونا چاہیے اور CA کے ذریعہ اسکو آڈٹ کرنے کا اہتمام بھی ضروری ہے اور پوری شفافیت کے ساتھ اس پر عمل ہونا چاہئے ۔ نیز اس حساس مسئلہ میں کسی کو بھی غیر دستوری اختیار ہرگز نہیں ہونا چاہئے ۔
۱۱۔ مدارس اسلامیہ کا رجسٹریشن اور جائیدادوں کی ملکیت کا نظام نیز ذمہ داران کے انتخاب کا نظام حکومت کے رجسٹریشن ایکٹ اور نظام کے مطابق بالکل واضح اور صاف ستھرا ہونا چاہئے ۔
۱۲۔ مدارس اسلامیہ سے متعلق ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مدارس کو استطاعت کے باوجود مضبوطی فراہم کرنے والے افراد کم اور مدارس پر تنقید کرنے والے افراد زیادہ ہیں ۔ یہاں تک کہ مدارس کے فارغین بھی اگر فراغت کے بعد مدارس سے منسلک نہیں ہیں تو وہ بھی مدارس کو تنقید کا نشانہ ہی بناتے ہیں جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی طاقت بھر مدارس کو مضبوطی فراہم کرنے کا جذبہ ہر مسلمان کے اندر ہونا چاہئے ۔

محمد رحمانی سنابلی مدنی