الحمدللہ “آذان انسٹیٹیوٹ” کی میزبانی اور “المفتاح” کے تعاون سے کل “مسئلہ فلسطین پر ہماری ذمہ داریاں”کے حوالے سے کچھ گذارشات پیش کی۔ مجھ سے قبل فضیلۃ الاخ حماد چاولہ حفظہ اللہ نے سرزمین شام کی فضیلت اور اہمیت پر جامع انداز میں سیر حاصل گفتگو کی اور اس کے بعد فضیلۃ الاخ کاشف نسیم دلکشا حفظہ اللہ نے صہیونیت کا تاریخی پس منظر پیش کیا جس کے بعد مجھے اپنی گفتگو کرنا بہت آسان ہو گیا تھا۔
امام سبکی علیہ الرحمہ نے فرمایا: ہمارے ہاتھوں کا کام فریاد کرنا نہیں، بلکہ گریبان پکڑنا ہے اور ہم صرف التماس اور درخواستیں انہی کے سامنے پیش کر رہے ہیں جو اس مسئلہ کے موجد ہیں۔
اس مسئلہ کا حل تو ایک ہی ہے جو قرآن مجید نے بتا دیا ہے۔
وَمَا لَـكُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالۡمُسۡتَضۡعَفِيۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالۡوِلۡدَانِ الَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ هٰذِهِ الۡـقَرۡيَةِ الظَّالِمِ اَهۡلُهَا ۚ وَاجۡعَلْ لَّـنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ وَلِيًّا ۙ وَّاجۡعَلْ لَّـنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ نَصِيۡرًا
کم از کم ہمارے حکمرانوں کو قرآن کے اس سوال کا جواب دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ ابھی فلسطینیوں کو ہماری عملی مدد کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی تمام قوتوں کے ساتھ ان کے ساتھ جا کھڑے ہوں۔
لیکن ہمارا منہج ہمیں جو حدود و شروط دیتا ہے اس کے بعد میں حکمرانوں پر تو بات نہیں کرتا لیکن اپنی قوت و طاقت کے اعتبار سے جو کچھ کر سکتا ہوں اس پر بات کروں گا۔ فلسطین کا معاملہ کوئی قومی یا وطنی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ تو ساری امت کا مسئلہ ہے، یہ تو قبلہ اول کا مسئلہ ہے، یہ تو معراج رسول کا مسئلہ ہے۔
امن معاہدے عبث ہیں: مسلم ممالک اور بالخصوص ان عربوں کو جو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں کے ذریعے حل نکالنا چاہتے ہیں، ان کو یہ بات خوب سمجھ لینی چاہئے کہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں، جیسا کہ قرآن مجید نے بھی کہا ہے کہ
“یہودی تم سے اس وقت تک خوش نہ ہوں گے جب تک تم انکے ملت کی پیروی نہ کرو” (البقرہ).
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ : “تم ان یہودیوں کو سب سے زیادہ اہل ایمان کا دشمن پاؤ گے”۔ (المائدہ).
قرآن کی ان پیشین گوئی کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہودیوں سے امن مذاکرات و معاہدات کا توقع رکھتا ہے وہ انتہائی حماقت کا شکار ہے۔ اس لئے مسئلہ فلسطین کا واحد حل یہ ہے کہ امت میں جہاد کی روح پیدا کی جائے۔
اور اصل اعانت تو وہ ہے جو سابقہ سطور میں بیان کر دی گئی ہے۔
وَمَا لَـكُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ
عیسائی حکمران راڈرک نے اپنے گورنر کی معصوم بچی سے زیادتی کی اور اس گورنر نے اپنے ہمسایہ اورہم منصب مسلمان گورنر موسی بن نصیر کو مدد کے لیے خط لکھا اورجواب میں طارق بن زیاد نے اسپین کو فتح کرکے اسے امن کا گہوارہ بنادیا اصل اعانت وہ ہے جس کا مظاہرہ حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے محمدبن قاسم کو سندھ بھیج کرکیاتھا۔ اصل اعانت تو وا معتصماہ کے جواب میں مسلمان خلیفہ المعتصم باللہ نے کی تھی۔مظلوم فلسطینی اسی کی دہائیاں دے رہے ہیں اور اللہ کا کلام مسلمانوں سے اسی کا طالب ہے۔
1) دعا: سب سے پہلا کام دعا کا ہے لیکن محض دعا نہیں دعا سے پہلے دعا کے بعد جو کام ہم کر سکتے ہیں وہ کریں رسول اللہ ﷺ نے بدر میں ڈیڑھ سو کلو میٹر کا سفر طے کر کے بدر کے میدان میں جا کر دعا کی تھی مسجد نبوی میں بیٹھ کر دعا نہیں کی تھی دعا ہمیں مصلوں اور جائے نماز پر بیٹھنا نہیں سکھاتی بلکہ عمل کی قوت دیتی ہے۔
2) جہاد بالمال : جو جتنی استطاعت رکھتا ہے وہ کرے۔
3) دشمن کی مصنوعات کا بھرپور معاشی بائیکاٹ کیا جائے۔
4) سوشل میڈیا پر ان کے حق میں بھرپور مہم چلائی جائے۔
5) یہود و صہیونیوں کی تاریخ سے اپنے بچوں کو آگاہ کریں تاکہ کم از کم ظالم کی پہچان تو ہو ابھی تک تو ہماری صفوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اسرائیل کے حق میں پوسٹیں لگا رہے ہیں کہ حماس نے جارحیت کی تھی۔
6) مختلف کتیبات جو فلسطین کے حوالے سے دینی و تاریخی ذخیرہ کو واضح کرے اسے طبع کروایا جائے اور تقسیم کیا جائے تاکہ عوام الناس کا شعور بیدار ہو۔
7) تاجر: جن مصنوعات کا بائیکاٹ کیا ہے وہ متبادل کا بندوبست کریں اور اپنی مصنوعات کا نام فلسطین سے متعلقہ ناموں پر رکھیں۔
8) صحافی: اخبارات میں مضامین لکھیں، کالم لکھیں، صہیونی سازشوں کے بے نقاب کیا جائے،اگر ممکن ہو تو اپنے ملک کے فلسطینی سفارت خانے کے زعماء کو اپنا پلیٹ فارم دیا جائے تاکہ وہ اپنی آواز بلند کر سکیں کیوں کہ ابھی تک تو ان کی آواز بھی بند کی جا رہی ہے، ابھی تک اردو میں کوئی ایسی مستند ویب سائٹ، کوئی فیس بک پیج، یوٹیوب چینل نہیں ہے جہاں سے ہمیں صحیح اور درست معلومات مل سکیں، تسلسل کے ساتھ میڈیا لیکچرز و سیمینارز کا اہتمام کیا جائے۔
9) تعلیم و تربیت: سکول،کالج، یونی ورسٹیز کے اساتذہ اپنے طلباء کو حقیقت حال سے آگاہ کریں، طلباء کو متعلقہ کتب اور آڈیو کلپس وغیرہ کی نشاندہی کریں، پورے ملک کا کوئی ادارہ کہیں کوئی نشان نظر نہیں آتا کہ مسجد اقصی سے ہمارا کوئی تعلق ہے، طلباء کو اس حوالے سے اسائنمنٹ دیں۔
10) سوشل میڈیا: فیس بک پیج بنائیں، یو ٹیوب چینل بنائیں، اس حوالے سے ٹاک شو ز کروائیں
اور سب سے آخری بات معتبر علماء پر اعتماد کریں ہر ایرے غیرے پر اعتماد نہ کریں اور جو کچھ بھی کرنا ہے اس کی نیت اخلاص پر ہونی چاہیے۔ والامر الی اللہ۔
ڈاکٹر شاہ فیض