سوال (2172)
میت کو جو غسل دیا جاتا ہے، اس کو غسل جنابت پر قیاس کرتے ہوے سر کا مسح چھوڑ دیا جائے گا اور پاؤں بھی آخر میں دھوئے جائیں گے یا نماز کی طرح وضو کیا جائے گا جس میں سر اور کانوں کا مسح بھی شامل ہوگا اور ساتھ ہی پاؤں بھی دھو دیے جائیں گے؟
جواب
دونوں صورتیں جائز ہیں، سر کا مسح چھوڑ دیں، بعد میں سر پر پانی ڈال دیا جائے گا، حساب برابر ہو جائے گا۔ اگر نماز کی طرح مکمل وضوء کروائیں تب بھی ٹھیک ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
غسل جنابت میں وضو ہے تو بلاشبہ سر کا مسح بھی ہے۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے:
“كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الجَنَابَةِ، غَسَلَ يَدَيْهِ، وَتَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلاَةِ، ثُمَّ اغْتَسَلَ” [صحيح البخارى: 272]
تو اس روایت میں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نماز کے وضو جیسا وضو فرماتے تھے۔
تو معلوم ہوا کہ وضو میں سر کا مسح موجود ہے اور سر پہ تین چلو غسل جنابت کے سبب ڈالے جاتے ہیں۔ اس لیے سر کا مسح بھی کروائیں گے۔
یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ جس روایت میں غسل جنابت کے دوران سر کے مسح کو نہ کرنےکا ذکر ہے، وہ سنداً ضعیف ہے، روایت کے لیے دیکھیے [سنن النسائی: 422] اس کی سند میں یحیی بن أبی کثیر راوی مدلس ہیں اور سماع کی صراحت موجود نہیں ہے۔
اب جو غسل جنابت میں سر کے مسح کو خارج کرتے ہیں وہ اس پر صریح دلیل پیش کریں۔
والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ