موقف اور بیانیے کی تبدیلی کا اقرار و اعتراف

چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک تقریر کا حصہ گردش کر رہا ہے جس سے یہ موضوع زیر بحث ہے کہ ہماری کچھ مذہبی جماعتوں کا جو منہج اور بیانیہ ماضی میں تھا اب وہ بیانیہ مکمل طور پر تبدیل ہو گیا ہے جس سے عوام میں اضطراری کیفیت پیدا ہورہی ہے ۔
سوشل میڈیا پر اس بحث پر جو طوفان بدتمیزی کھڑا ہوا ہے اور جس طرح کی بازاری زبان استعمال کی گئی ہے وہ نہایت قابل مذمت ہے۔
یہ مثبت بات ہے کہ یہ قیادت اپنے بڑھتے ہوئے علم اور تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے نئے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اپنے ماضی کی اجتہادی اور عملی غلطیوں سے سیکھنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔
مذہبی جماعتیں اپنا منہج قرآن و حدیث کے ساتھ جوڑ کر چلتی ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے کارکنان اس منہج کی تنفیذ کرتے ہوئے اپنے منہج کو امر الٰہی سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ان کے قائدین کااجتہاد ہوتا ہے ۔
بظاہر تو یہ اپنے اقدامات قرآن و حدیث کے مطابق لے کر چلتے ہیں مگر حقیقتاً یہ اپنی سمجھ بوجھ اور تجربات کے تحت اپنے منہج کو اپناتے ہیں ۔
اس صورتحال میں اکثر قائدین اپنے مؤقف پر سخت کار بند ہوتے جاتے ہیں اور ان کے کارکنان اطاعت امیر میں اندھے ہوتے چلے جاتے ہیں۔اور اطاعت امیر کو امرالٰہی سمجھ لینے کی وجہ سے بہت سارے کارکنان نا چاہتے ہوئے بھی بہت ساری غلطیاں اور تخریب کاریاں کر جاتے ہیں۔
اپنی غیر اخلاقی اور تخریب کارانہ حرکات کا ذمہ اپنی ذات پر لینے کی بجائے اللہ پر ڈال دیتے ہیں اور اس کو حق سمجھ کر کرتے ہیں۔اور عموماًاس طرح کے کام بھی بے دریغ ہوکر کر گزرتے ہیں جو ان کی اپنی سمجھ بوجھ کے بھی منافی نہیں ہوتے ۔
مذہبی جماعتوں کے نظریات کو مال و جان سے ماننے والی عوام پھر اس موقف پر ناراضگی کا اظہار کرتی ہے
کیونکہ انہوں نے اپنے مال و جان کی قربانی دی ہوتی ہے ۔
اور بعض اوقات ان جماعتوں نے اللّٰہ کے نام پر طوعاً او کرھا جان و مال کی قربانی وصول بھی کی ہوتی ہے۔
اور اچانک سے موقف کے الٹ ہونے پر عوام کے دل میں غم و غصہ اور دکھ آتا ہے اور ان کا غصہ کا اظہار کرنا بجا ہے۔
عوام الناس کے سامنے بھی یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ یہ بے موقف قیادت ہے۔کل ایک بات پر اڑی تھی تو آج دوسری بات پر ۔ان کی بات کو کیا سمجھنا اور کیا ماننا۔
جن آیات و احادیث سے پہلے ایک موقف ثابت کر رہے تھے انہیں اب آیات واحادیث سے ایک اور موقف ثابت کررہے ہیں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ جب موقف میں تبدیلی آئے تو اس بات کو علی الاعلان واضح کرنا چاہیے کہ
ہم سے پہلے اجتہاد میں کچھ غلطی ہوئی اس میں اصلاح کی ضرورت تھی۔
ہم انسان ہیں خطا کے پتلے ہیں۔اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر مستقبل میں ان سے دور رہیں گے لیکن ہماری نیت پہلے بھی اصلاح کی ہی تھی اور اب بھی یہی ہے ۔
جس طرح ہم سے ماضی میں غلطیاں ہوئیں مستقبل میں بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ ہم انسان کبھی پرفیکٹ نہیں ہو سکتے اس میں ہم نے اپنی اصلاح کے دروازے کشادہ رکھے ہیں۔
کسی بھی بات کو ہم سننے اور کھلے دل سے قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اس لیے اپنے مؤقف کو ہمیشہ سو فیصد درست سمجھ لینا اور اپنے علم کے گھمنڈ میں آجانا بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
قائدین کو چاہیے کہ وہ تقدس کی چادریں نہ پہنیں اور اپنے آپ کو، اپنے کارکنان کو اور عوام کو اپنے خطاکار انسان ہونے کی یاد دلاتے رہیں۔ اور ان کارکنان کی حوصلا شکنی کریں جو ان کا انسان کے درجے سے بلند کرتے ہیں۔

C.E.O Mohsineen Youth Squad
Saifullah Kailani

یہ بھی پڑھیں:بت شکن اٹھ گئے باقی جو ہیں بت گر ہیں