پھر آئی ایم ایف کے چرنوں میں

آئی ایم ایف کی غلامی کا طوق ہمارے ٹیٹوے کو اتنا دبوچ چکا ہے کہ ہماری سانسیں دُکھنے لگی، بدن نڈھال اور لاغر ہو چکے ہیں، غریب عوام کا زندہ رہنا دوبھر ہو چکا ہے، زندگی کا ہر لمحہ اور ہر پَل اجیرن بنا دیا گیا ہے، نہ صرف جرائم کی شرح میں خوف ناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے بلکہ خود کشی کرنے والوں کی تعداد بھی روز بہ روز بڑھتی جا رہی ہے، قوم کو آئی ایف کے نام سے سخت نفرت ہونے لگی ہے، اس لیے کہ جب بھی آئی ایم ایف سے نیا قرض لینے کی جد و جہد شروع کی جاتی ہے، منہگائی کا نیا طوفان منہ پھاڑ کر عوام کی بچی کھچی آسودگیوں کو نگل لینے کے لیے نئی نئی شرائط لاگو کرنے کی فہرستیں جاری کر دیتا ہے۔اقتدار میں آنے سے قبل ہر سیاسی جماعت کا قائد آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کی دل رُبا نوید اور خوش نما بشارتیں سناتا ہے مگر وزارتِ عظمیٰ پر متمکن ہوتے ہی آئی ایم ایف کی قدم بوسی شروع کر دیتا ہے، بات فقط آئی ایم ایف کے چرنوں کو چھونے اور قدموں میں بچھ جانے تک محدود نہیں بلکہ یہ لوگ اس کی تمام تر ناروا اور مکروہ شرائط کسی مطیع اور تابع فرمان غلام کی مانند تسلیم کر لینے میں ذرا تامّل یا تردّد نہیں کرتے، یہ تسلیم و رضا اور اطاعت و تابع فرمانی ان کے ضمیر پر کبھی ثقیل، گراں یا بوجھل نہیں ہوتی اس لیے کہ آئی ایم ایف کی ہر بات مان لینے کا نقصان ان سیاست دانوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں ہوتا بلکہ زندگی محال تو عام آدمی کی ہونے لگتی ہے، جینا تو غریب اور درمیانے طبقے کے لوگوں کا دوبھر ہوتا ہے۔آئی ایم ایف کے قرض کا واضح مطلب منہگائی کا منہ زور اور سرکش طوفان ہے۔عوام کے بلکنے اور تڑپنے کا احساس کسی کو ہوا ہے نہ کبھی ہو گا۔مادھو اوانہ کے اشعار ہیں:-
منہگائی نے بے شک جینا محال کیا ہے
دل کی دل میں رکھو کہ سرکار سو رہی ہے
روز دام بڑھاتی ہے شاید حکم ملا ہے کہیں سے
جلدی جیب ڈھیلی کرو کہ سرکار سو رہی ہے
نئی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی آئی ایم ایف کے سامنے کشکول رکھ دیا گیا ہے۔اس موجودہ پروگرام کے متعلق آئی ایم ایف کی ” بشارتیں “ سب کے سامنے ہیں، بہ قول آئی ایم ایف، پاکستانی حکام بجلی اور گیس کی قیمتوں کو بڑھانے کے لیے تیار ہیں، جب کہ سٹیٹ بینک بھی منہگائی کو روکنے کے لیے شرح سود زیادہ رکھنے اور ایکس چینج ریٹ کی شفافیت برقرار رکھنے پر امادہ ہے، یہی نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستانی حکام نے 400 ارب روپے کا سرپلس رکھنے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔
آئی ایم ایف نے اپنا دوسرا ہدف توانائی کے شعبے میں ” اصلاحات “ کے نام پر بنایا رکھا ہے۔اس حوالے سے ائی ایم ایف کے مطالبات ہیں کہ بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا نظام بہتر بنایا جائے، دوم کیپٹو پاور یعنی نجی بجلی گھروں کی طلب کو قومی گرڈ پر منتقل کیا جائے، سوم بجلی تقسیم کار کمپنیوں میں اصلاحات لائی جائیں اور بجلی کی چوری کا خاتمہ کیا جائے۔یہ ساری ” اصلاحات “ محض کاغذ تک محدود ہوں گی، اصل مقصد تو پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔جب بھی بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھتی ہیں، عوام کے چہروں کی بچی کھچی رعنائی اور تازگی مسموم پڑنے لگتی ہے، ان کی آنکھوں میں زردی دوڑ جاتی ہے۔محور سرسوی نے کہا ہے کہ:-
غربت نے چھین لِیں میرے چہرے کی رونقیں
یوں تو کسی امیر سے کم تر نہیں ہوں مَیں
آئی ایم ایف کا اگلا ہدف منہگائی کے حوالے سے ہے۔عالمی مالیاتی فنڈ نے مہنگائی کو واپس ہدف پر لانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ایکسچینج ریٹ کو شفاف طریقے سے برقرار رکھا جائے اور زر مبادلہ میں اضافہ کیا جائے۔جب پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ہولناک اضافہ ہو گا تو منہگائی کو روکنا محض ایک لطیفے بلکہ جُگت سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔قوم کا جینا محال کرنے کے لیے ایک بار پھر منہگائی کا سونامی آنے والا ہے۔
نئے پروگرام کے لیے آئی ایم ایف نے نئے مطالبات میں نجی کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ اور سرکاری ملکیت کے اداروں کی نج کاری بھی شامل ہے۔آئی ایم ایف نے زور دیا ہے کہ بعض کاروباری اداروں کو دیے گئے تحفظ کا خاتمہ کیا جائے۔
190 رکن ممالک پر مشتمل انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔اس کا بنیادی مقصد عالمی معیشت کو مستحکم کرنا ہے۔کوئی بھی ملک اس ادارے کے تقاضے پورے کر کے اس میں شامل ہونے کی درخواست دے سکتا ہے۔جو ملک جتنا امیر ہوتا ہے، اسے اتنے زیادہ پیسے ادا کرنا پڑتے ہیں۔کسی ملک کی معیشت کی نگرانی اور اس کی حمایت کے لیے آئی ایم ایف تین کام کرتا ہے:
معاشی و مالی معاملات کی ٹریکنگ۔یہ دیکھتا ہے کہ ایک ملک کی کارگزاری کیسی ہے اور اسے کن خطرات کا سامنا ہے، رکن ممالک کی معیشت کو بہتر بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔لیکن اب آئی ایم ایف پاکستان جیسے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے، یہ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں کا تعین کر کے کسی بھی ملک کے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کی زندگیوں کو براہِ راست متاثر کرنے لگا ہے اور قرض دینے کے عوض اپنے تمام تر ناجائز مطالبات تسلیم کرواتا ہے۔
یہ حقیقت اب سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ قرض کے نام پر جتنے ڈالر دے ڈالے اس سے عام آدمی کی زندگی کسی طور بہتر نہیں ہو سکتی، البتہ سیاست دانوں اور بیوروکریسی کو گُل چھرے اڑانے کے مواقعے، وسیع اور فراخ ضرور ہو جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی آئی ایم ایف قرض دینے کا ” مژدہ “ سناتا ہے، عام آدمی پر کپکپی طاری ہو جاتی کہ اب منہگائی کا طوفان آئے گا جو اس کی سانسیں مزید پی جائے گا۔رشید حسرت نے کیا خوب صورت اشعار کہے ہیں!
منہگائی کا اب آیا ہے طوفان یقیناً
توڑے ہیں حکمرانوں نے پیمان یقیناً
انسان کی توہین کبھی اتنی نہیں تھی
روٹی ہے گراں، خون ہے ارزان یقیناً

( انگارے ۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: شاید کہ پھٹ ہی جائے جگر آسمان کا