اپنی پسندیدگی دوسروں پر نہ تھوپیں!
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ تنہائی افضل ہے یا لوگوں سے مل جل کر رہنا بہتر ہے؟، آپ نے اس سے متعلق ایک طویل جواب دیا جس کا خلاصہ درج ذیل دو سطروں میں ہے:
«هَذَا بَابٌ وَاسِعٌ يَغْلُو فِيهِ كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ وَيَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ. فَإِنَّ مِنْ النَّاسِ مَنْ يَرَى أَنَّ الْعَمَلَ إذَا كَانَ أَفْضَلَ فِي حَقِّهِ لِمُنَاسَبَةِ لَهُ وَلِكَوْنِهِ أَنْفَع لِقَلْبِهِ وَأَطْوَع لِرَبِّهِ يُرِيدُ أَنْ يَجْعَلَهُ أَفْضَلَ لِجَمِيعِ النَّاسِ وَيَأْمُرَهُمْ بِمِثْلِ ذَلِكَ».
’حالات و مناسبات کے لحاظ سے اس سلسلے میں وسعت ہے، ہر ایک کے لیے لگا بندھا اصول و ضابطہ بیان کرنا ممکن نہیں، لیکن لوگ اس میں افراط و تفریط کا شکار ہو کر خواہش نفس کی پیروی میں لگ جاتے ہیں۔ لہذا بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی عمل ان کے لیے بہتر اور افضل ہے، تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ تمام لوگوں کے لیے اسی کام کو افضل قرار دے کر انہیں اس کا حکم دینا شروع کر دے’۔ [مجموع الفتاوى 10/ 428]
ساتھ مثالیں دیں کہ کسی کے لیے طلب علم افضل ہوسکتی ہے، کسی کے لیے جہاد فی سبیل اللہ، کسی کے لیے صوم و صلاۃ جیسی نفلی عبادات، اسی طرح بعض اوقات تنہائی اور کبھی مل جل کر رہنا۔ وغیرہ۔