اسلامیہ یونیوسٹی بہاولپور کا واقعہ آپ سب نے پڑھ لیا۔ پوری قوم سکتے کی حالت میں ہے۔ بہرحال ہمیں اس بات سے غرض نہیں کہ وہ کس طرح پکڑا گیا کیوں کہ پولیس کی کہانی میں ویسا ہی جھول ہے جیسے کہ پہلے دہشت گرد اپنا شناختی کارڈ مقام واردات پر چھوڑ جایا کرتے تھےعلی کل حال۔۔۔۔۔
یہ بات بالکل نہ ماننے والی ہے کہ سینکڑوں کیسز میں سے کسی ایک کیس نے بھی یونی ورسٹی انتظامیہ تک رسائی نہ کی ہو گی لہذا موبائل فونز کو کمپیوٹر کے ساتھ کنیکٹ کر کے سینٹ باکس اور نمبرز چیک کیے جائیں معلوم ہو جائے گا کہ اس گھناونے اور سفاکانہ عمل میں انتظامیہ کا کون کون سا فرد شامل تھا جس نے کبھی اس پر کوئی مناسب ایکشن نہ لینے دیا اس اعتبار سے تو وی سی صاحب و رجسٹرار وغیرہ بھی شک کے دائرے سے باہر نہیں ہیں۔
ویڈیوز رپورٹ کیوں نہیں ہوتیں ؟
ہم سب جانتے ہیں کہ عزت کے مسائل کی وجہ سے بچیاں چپ رہتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بچیوں کو ایسی صورت حال میں رپورٹ کرنے کی تربیت ہی نہیں دی گئی بلکہ پتا چلنے پر بھی والدین چپ کرا دیتے ہیں۔ بلکہ چھوٹی عمر میں بچیوں کو تو سمجھ ہی نہیں آتا کہ اُن کے ساتھ ہوا کیا ہے۔
کانفیڈنس کی ماری غریب بچیوں اور خاص کر وہ بچیاں جن کے گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے یا ڈومیسٹک وائلینس کا شکار ہوتی ہیں، انکو با آسانی گھیرا جاتا ہے۔ خوف کا ماحول بنایا جاتا ہے کہ ہم تو فلانے ادارے کی بہت بڑی توپ چیز ہیں، ہم سے بچ کر کہاں جاؤ گے۔ اسلحہ دکھایا جاتا ہے اور انہیں ، یہاں تک کہ اِنکے والدین کو مارنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔
مسئلے کا حل کیا ہے ؟
01) سب سے پہلے تو رپورٹنگ ۔(اللہ نہ کرے اگر کسی بچی کے ساتھ سانحہ ہو تو) سب سے پہلے والدین اور پھر یونیورسٹی انتظامیہ کو رپورٹ کیا جائے۔
02) یونیورسٹیز میں ہراسمنٹ رپورٹنگ سیلز بنائے جائیں جس میں قابلِ اعتماد ٹیچرز ہوں (زیادہ فیمیل) اور اِن سیلز کا کنیکشن ڈائریکٹلی وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسگی سے ہو۔
www.fospah.gov.pk‎
03) ہر کیس میرٹ پر سنا جائے۔
04) ایسے کیسز میں زیرو ٹولرنس ہونا چاہیے۔ کسی مجرم کو نہ بخشا جائے۔ جہاں تک ہو گورنمنٹ پر زور دیں کہ وہ ہر سطح پر اسکا سد باب کریں۔
05) ٹاسک فورس بنا کر ڈارک ویب سے ایسے بے غیرتوں کو پکڑا جائے جو اِس کنٹینٹ کو بیچنے میں مصروف ہیں ۔
06) یونیورسٹیز میں انتظامیہ چیک اینڈ بیلنس رکھے اور سیکیورٹی کے معاملات میں ٹیچرز، سٹوڈنٹس اور والدین کوشامل رکھیں۔ صرف ایک بندے کو گاڈ موڈ نہ دیا جائے ۔
07) اور اگر ہم سے پوچھا جائے تو ہم وہ حل بتا دیتے ہیں جو شریعت نے چودہ سو سال پہلے بتا دیا تھا یہ سارے مسائل مخلوط تعلیم یا بچیوں کے تعلیمی معاملات میں مردوں کا عمل دخل ہونے سے ہیں۔ سدباب کیا جائے کہ بچیوں کے تعلیمی و رہائشی معاملات میں مردوں کا عمل دخل بالکل بھی نہ ہو۔
08) آخری بات ابھی مکمل سچ آنا باقی ہے بسا اوقات اصل کہانی پردے کے پیچھے چل رہی ہوتی ہے سکرین پر جو کہانی چل رہی ہوتی ہے وہ مکمل فراڈ ہوتی ہے۔

شاہ فیض الابرار صدیقی