یہ جو ایمان کی خوشبو میں نہائے لوگ ہوتے ہیں نا، یہ ہمہ قسم کی اذیتوں اور آلام کے باوجود بھی ناسپاسی اور نا شُکری سے کوسوں دُور ہوتے ہیں۔یہ لوگ ایمان کے سوا
ہر قیمتی متاع کو کھو دینا گوارا کر لیتے ہیں اس لیے کہ ایمان اِنھیں جان و تن سے بھی پیارا ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ اِن کی خوش دلی اور اطمینانِ قلبی کا پہلا اور آخری سبب ایمان اور قرآن ہی تو ہوتا ہے۔یہ وفا کیش اور جنوں خیز لوگ ایمان کو اپنے دلوں میں بسائے قرآن کی مَحبّت میں کمال کر دیتے ہیں اور آپ جانیں کہ قرآن جب کسی سِینے میں اترتا ہے تو پھر آلام کسی بھی مکروہ اور بھیانک شکل میں کیوں نہ آئیں، اِن ایمان مآب لوگوں کے دل سے سکون اور سرور کو چھین ہی نہیں پاتے، اماوس کی راتیں ان کے دلوں پر اتر آئیں تب بھی، تیرہ شبی اِن کے گرد حصار بنا لیں تب بھی اور خار و آزار اِن کی زیست کے ماہ و سال کو اذیت ناک بنا دیں تب بھی، یہ لوگ نشاط کے رنگوں اور انبساط کی روشنیوں میں گُندھے رہتے ہیں۔مجھے کہنے دیجیے! کہ ایمان کی حلاوتیں جب کسی بھی دل میں جاگزیں ہو جائیں تو نہ صرف زندگانی کی مسافتیں سہل ہو جاتی ہیں بلکہ جسم و جاں میں سکون و اطمینان کے غنچے بھی چٹکتے چلے ہیں۔دیکھ لیجیے ! عقیدہ ء توحید پر استقامت دلوں کو کیسی طمانیت سے نوازتی ہے کہ آدھے دھڑ جیسی جان کاہ معذوری ہونے کے باوجود بھی اس شخص کی زندگی کا ہر پَل اور ہر لمحہ مطمئن و مسرور ہے۔چلنے پھرنے کی معذوری کوئی معمولی نوعیت کی تو نہیں ہوتی، ایسی نا آسودہ کیفیت میں اگر کوئی انسان لبوں پر تبسّم اور زبان پر تشکّر کے کلمات رکھتا کمال ہے، تو کمال کرتا ہے، پھر اللہ ربّ العزّت کو اس پر پیار آتا ہے اور اگر کسی انسان پر اللہ کو پیار آ جائے تو اس کی دنیا و آخرت دونوں ہی سنور جاتی ہیں۔
ہم ذرا اپنا جائزہ لیں! کہ ہماری زندگیوں میں کوئی ایک آدھ تُرش اور تلخ جھونکا آ بھی جائے تو ہمارے لب ناسپاسی کے لیے فوراً حرکت میں آ جاتے ہیں، کسی خفیف سی درماندگی میں بھی انسان خود کو معاشرے کا عضوِ معطّل سمجھنے لگتا ہے مگر آپ یقین کریں کہ یہ فقط قرآن ہی کا اعجاز ہے کہ آدھے وجود کے ساتھ بھی اس کے لبوں پر دل نشیں مسکراہٹ ہے، وہ کروڑوں توانا اور جوان رعنا لڑکوں سے زیادہ شاداں و فرحاں دِکھائی دیتا ہے۔
5 مئی 2002 ء کو غانم محمد المفتاح قطر میں پیدا ہُوا، بچپن ہی میں وہ ایک ایسے موذی مرض کا شکار ہُوا کہ جس میں ریڑھ کی ہڈی کا زیریں حصّہ نشوونما نہیں پا سکتا، کتنے ہی سکولوں نے اسے داخلہ دینے سے انکار کر دیا۔آپ احساسِ محرومی کے ان جذبات کی شدت کا اندازہ تو کریں کہ جب بچے اس کے ساتھ کھیلنے سے انکار کرتے ہوں گے تو اس کا دل کس قدر کٹ کے رہ جاتا ہو گا۔اس نے دینی تعلیم حاصل کی، وہ قرآن کا حافظ بنا اور آج 20 سالہ غانم محمد المفتاح قطر کا موٹیویشنل سپیکر ہے۔وہ غریسہ آئسکریم نامی کمپنی کا مالک بھی ہے، جس کی قطر میں 6 شاخیں ہیں، آج غانم محمد المفتاح عزم و ہمت کا ایک استعارہ بن چکا ہے کہ اُس نے اپنے جیسے معذور بچوں کی مدد کے لیے ایک فلاحی تنظیم ” الغانم فاؤنڈیشن “ کی بنیاد بھی رکھی جو دنیا بھر میں معذور افراد کو وہیل چیئر کی فراہمی یقینی بناتی ہے۔بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ معذوری کے باوجود بھی ہر میدان میں خود کو منوانے والا غانم محمد المفتاح 2017 ء میں وہیل چئیر کے بغیر ہاتھوں کے بل عمرہ کی سعادت حاصل کر چکا ہے، وہ ہاتھوں میں دستانے پہن کر فٹ بال کھیلا کرتا تھا، بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی، اس لیے کہ غانم بہترین غوطہ خور بھی ہے، وہ سمندر میں 200 میٹر تک غوطہ خوری کر چکا ہے۔
فٹ بال ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب ہوئی، مورگن فری مین نے کہا کہ ” آج دنیا مختلف زبانون، ممالک اور ثقافت میں تبدیل ہو چکی ہے، ہم ایک ساتھ دنیا میں کیسے رہ سکتے ہیں؟ ہم میں بڑا اور اچھا کون ہے؟ “ معذور غانم محمد المفتاح نے سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 13 کی تلاوت کی۔
” اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمھارے قبیلے اور کنبے بنا دیے تاکہ تمھاری پہچان ہو، لیکن تم میں سے زیادہ محترم و مکرم اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متّقی ہے“
ذرا اِن ٹھٹھرتی شاموں میں اپنے اردگرد پھیلے عقائد و نظریات کا جائزہ لیں کہ یہاں تو صحت، تن درستی اور مال و منال کی فراخی بھی ایذاؤں ہی میں ڈھلی ہے، شاید ہم اپنی منزل کو بھول چکے ہیں، یقیناً ہم منزل کی طرف جانے والے راستے بھی گم کر بیٹھے ہیں کہ ہم نے یورپ اور مغرب کو اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔یہ کیسا جمود ہے؟ یہ کیسا تعطّل ہے اور یہ کیسا سکوت ہے؟ ہمارے بنجر اور اجاڑ دل، قرآنِ ذی شان کی مَحبّت سے کب فروزاں ہوں گے، ہم اپنی ساری صلاحیتیں گنجلک گتھیوں کو سلجھانے میں کھپاتے زندگی کی آخری سیڑھی پر آ کھڑے ہوتے ہیں مگر ہمیں اسلام کی حقیقی روح کا ادراک تک نہیں ہوتا۔آدھے دھڑ کا یہ نوجوان میرا ہیرو ہے، آپ کا ہیرو ہے، اسلام کا ہیرو ہے، زندگی میں جب بھی دشواریاں آئیں تو غانم محمد المفتاح کے حوصلوں کی طرف جھانک لیجیے گا۔اگر ہم بھی قرآن کے ساتھ وفاؤں کی حرمت کا خیال رکھ لیں تو ہماری بلکتی اور سسکتی روحوں کو قرار ضرور مل سکتا ہے۔