طلبہ وعلماء کا معاشی بندوبست ایک قومی فریضہ ہے!

1۔ امام لیث بن سعد مصری رحمہ اللہ ہر سال امام مالک بن انس رحمہ اللہ کو 1 ہزار دینار دیا کرتے تھے۔
اور ایک مرتبہ جب امام مالک نے کہا کہ مجھ پر قرض چڑھ گیا ہے تو امام لیث نے ان کی طرف 500 دینار ارسال کیے۔
ایک سال امام لیث بن سعد حج کرنے تشریف لائے تو مدینہ آمد پر امام مالک نے ان کی طرف تازہ کھجوروں سے بھری ایک پلیٹ بھیجی، جس میں امام لیث رحمہ اللہ نے واپسی 1 ہزار دینا رکھ کر بھیجے!
2۔ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو سرزنش کی گئی کہ آپ کیوں اتنا سارا مال دوسرے علاقوں میں طلبہ وعلماء پر بانٹ دیتے ہیں؟!
فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ وہ لوگ کس قدر فضیلت اور اخلاص کے حامل ہیں۔ ان حضرات نے پہلے بڑی محنت سے علم حدیث حاصل کیا اور اب لوگ ان سے علم سیکھنے کے محتاج ہیں، جب کہ ان علماء کی اپنی اور ان کے بچوں کی بھی ضروریات ہوتی ہیں۔
اگر ہم ان کو یوں ہی چھوڑ دیں گے تو (معاشی مشکلات کے سبب) ان کا علم ضائع ہو جائے گا۔ اور اگر ہم ان سے تعاون کریں گے تو یہ امت محمدیہ میں علم کی اشاعت کریں گے۔ اور میرے علم کے مطابق نبوت کے بعد علم سکھانے سے بڑا کوئی رتبہ نہیں ہے!
(سیر اعلام النبلاء: 387/8)
3۔ جب امام ابن باز رحمه اللہ کو سعودی عرب کا امیر نایف ایوارڈ (1 لاکھ ڈالر) دیا گیا تو انھوں نے ساری رقم طلبہ علم پر وقف کر دی کہ وہ اس سے اپنی ضروریات پوری کریں۔ اور یہی ایوارڈ جب شیخ عبد المحسن عباد حفظہ اللہ کو ملا تو انھوں نے بھی اس کی ساری رقم اپنے مسحق طلبہ میں تقسیم کر دی!
4۔ امام ابن عابدین رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب کوئی شخص طلب علم میں نکلتا ہے تو دیگر مسلمانوں پر اس کی معاشی کفالت لازم ہوتی ہے۔ اور اگر وہ اس میں کوتاہی کریں تو ان سے بالجبر مال لے کر اس طالب علم پر خرچ کیا جائے گا جیسے زکات نہ دینے پر زبردستی وصول کی جاتی ہے۔ (تنقیح الفتاوى الحامدیہ)
5۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں دو بھائی تھے، ان میں سے ایک نبی اکرمﷺ کی خدمت میں (طلب علم کے لیے) رہتا تھا اور دوسرا محنت ومزدوری کرتا تھا۔
محنت ومزدوری کرنے والے نے ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ سے اپنے بھائی کی شکایت کی (کہ یہ کام نہیں کرتا ہے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘شاید تجھے اسی کی وجہ سے روزی ملتی ہو’ (سنن الترمذی 2345)
اس حدیث سے بھی طلب علم میں مصروف شخص کی معاشی کفالت کی تاکید ظاہر ہوتی ہے اور ساتھ اس کی بدولت کاروبار کرنے والے شخص کو برکت حاصل ہونے کی نوید سنائی گئی ہے۔

حافظ شاہد رفیق

یہ بھی پڑھیں:سرمائے کو مدرسے سے نکال دو!