سرمایہ جدید تہذیب کا وہ گندا انڈہ ہے۔ جس نے ہماری پوری تہذیب کو لپیٹ میں تو لیا ہی تھا، اب ہماری الہیات میں گھس بیٹھا ہے۔ حتی کہ یہ سوال مدرسے کے ہر طالب علم اور ہر استاذ کے ذہن میں سنپولئے کی طرح گھر کر چکا ہے کہ میں کھاؤں گا کہاں سے۔؟ خود ہمارا پالا اس سوال سے شدید نوعیت کا رہا ہے۔ لیکن ہمارے عقیدے نے ہمیں اس سوال کو سیریس لینے نہیں دیا کہ ہماری طبیعت بچپن سے وہابی ہے۔
یہ سوال مدرسے کے استاذ اور طالب علم نے خود اٹھایا ہے؟ تو اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ یہ سوال ان کو پلایا گیا ہے۔ بلکہ پوری مہم جوئی کے ذریعے جس مہم جوئی کے سرخیل چند امیر مولوی یا مولوی زادے ہی ہیں، یہ بحث ہر دروازے تک پہنچا دی ہے کہ مدرسہ کا طالب علم کھائے گا کہاں سے۔ یا دنیوی حلقوں میں سوال کی بجائے اعتراض کے طور پر کہا جاتا ہے کہ مدرسہ بے روزگاری پیدا کر رہا ہے۔
ہمارے کچھ لوگوں نے ان سوالات کے جواب دینے کے لئے پوری کی پوری کتابیں لکھ ماری ہیں۔ ایک صاحب نے اپنی کتاب میں مدارس کے فوائد گنواتے ہوئے یہ بھی گنوایا کہ مدرسہ لاکھوں غریب لوگوں کی کفالت کر رہا ہے۔ غریب بچوں کو تعلیم دے کر کاروبار کے قابل کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ! گویا سوال کرنے والے اور جواب دینے والے دونوں کے پیش نظر یہ بحث ہی نہیں ہے کہ مدرسہ کس مقصد کے لئے بنایا جاتا ہے۔ یا مدرسے کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ کیا مدرسہ کی تعلیم کا مقصد سرمایہ کمانا ہے؟ دولت بنانا ہے؟ مارکیٹنگ انڈسٹری کھڑی کرنا ہے؟ یا بیوروکریسی کو خام مال مہیا کرنا ہے؟
جیسا کہ ہم نے عرض کیا، طالب علم، استاذ، سائل، مجیب کوئی بھی اس بات پر غور کرنے کو تیار نہیں۔ سوال اٹھانے والے سے لے کر پڑھانے والے اور جواب دینے والے تک سبھی دینی تعلیم کو کیپٹل ازم کے تناظر میں تول رہے ہیں۔ اسی لئے جب کسی طالب علم سے سوال کیا جائے کہ بیٹا اگلی زندگی میں کیا کرنا ہے تو اکثر کا جواب کوئی بڑی جاب، بڑا ادارہ یا بڑی مسجد ہی کے طور پر ملتا ہے۔ کم ہی طلباء کے پاس کوئی ایسا جواب نظر آتا ہے۔ جس جواب سے اتنا معلوم ہوسکے کہ اس جوان کا مقصد کلئیر ہے۔
مدرسہ کی تعلیم کا بنیادی مقصد حصول علم ہے۔ اور اس مقصد کو لفظوں میں بیان تو سبھی کر سکتے ہیں لیکن پریکٹیکل صورت حال یہ ہے کہ ہم اس مقصد کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ جب پڑھنے والے کے پاس ہی ایسا مقصد نہیں نہ پڑھانے والے کے پاس تو محض تھیوری کو آگ لگانی ہے۔
خود مدرسے کا پڑھا مولوی بار بار شور کرتا ہے کہ اپنے مدارس کو طلبہ کو سکل سکھاؤ، کاروبار سکھاؤ، فلاں فلاں فلاں کورس کرواؤ، لیکن کوئی نہیں کہتا کہ مدرسے کے طالب کو اس کے اپنے علوم میں مہارت دو؟ گویا مدرسہ جاتی علوم کو پریکٹیکلی آپ نے اپنے سوال میں ہی نہیں رکھا؟ میرا سوال صرف اتنا ہے کہ بچے کو کمیونیکیشن سکل مدرسہ سے فارغ ہونے کے بعد کیوں نہیں سکھائی جاسکتی، اس کے لئے مدرسے کا وقت برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یا اسے آپ نے کوئی کاروبار سکھانا ہے۔ تو کیا مدرسہ پڑھنے کے بعد اس کے ہاتھوں کو فالج ہوجاتا ہے یا زبان بند ہوجاتی ہے کہ اب وہ کچھ سیکھ نہیں سکے گا؟ اگر کسی نے بیوروکریسی میں تشریف لے جانے کا مقصد بنا لیا ہے تو مدرسہ کی تعلیم کے بعد اس طرف توجہ کیوں نہیں کر سکتا؟ یہاں مدرسہ میں رہ کر دینی تعلیم کو کھڈے لائن لگا کر ساری زندگی یہی خواب کیوں دیکھتے رہنے ہیں؟ بات سادہ سی ہے۔ مقصد بدل دئیے جا رہے ہیں اور برائے افسوس یہ کہنا پڑتا ہے کہ مقاصد بدلنے میں سب سے بڑا کردار خود مولوی لونڈوں کا ہے۔ یہاں اگلے روز ایک خانوادہ قسم کے امیر زادے تشریف لائے ہوئے تھے۔ اور وہ بچوں کو پڑھا رہے تھے کہ تمہاری گھڑی جوتی کپڑے برینڈ کے ہونے چاہئیں اس سے تمہاری عزت بنے گی۔ گویا خود مولوی کی عزت ان کپڑوں کی وجہ سے بنے جو اس نے پہن رکھے ہیں۔ واہ سبحان اللہ! یعنی اس کی ذات کے پاس ایسی کوئی کرتوت نہیں جس کی عزت کی جائے۔ کپڑے اچھے رکھ لو۔ کیوں کہ امیر لونڈوں کو اچھے کپڑوں سے بہلایا جاسکتا ہے۔ کمال نہیں ہوگیا۔
دیکھیں اچھے کپڑے پہننے سے منع کوئی نہیں کرتا۔ ہمیں پچاس ہزار کا سوٹ لے کر پہننے کی توفیق ہو تو پہن لیں گے۔ لیکن یہ خالص ذوق کی باتیں ہیں۔ ان کو مقاصد بنا کر پیش کرنے سے کیا حاصل ہے؟ سوائے غریب طالب کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے۔ یا ساری زندگی ایک عالم کو اس احساس میں مبتلا رکھنے کے کہ میرا سٹیٹس اور لوگوں سے کم ہے؟ پچھلے کئی برس سے علماء، موٹیویشنل اسپیکرز، ٹاک شوز وغیرہ سن سن کر پک گیا ہوں اور سب یوں ہی لگتا جیسے نئے امیر ہوں۔ مجھے عجیب لگتا ہے جب قیصر راجہ جیسا دنیا دار آدمی مدرسہ کے مقاصد بیان کر رہا ہوتا ہے اور فلاں صاحب زادہ جو مولوی ہے۔ وہ دنیا کا سب پڑھا رہا ہوتا ہے۔ فلاں فلاں جو مدرسہ سے پڑھ کر آگے آئے ہیں وہ اپنے ہی مدرسے کے ساتھیوں کو حقیر جان رہے ہوتے ہیں۔ بندہ پوچھے کہ تم کوئی تخت بلقیس کے وارث ہو، غوث پاک ہو، سپر مین ہو یا کیا ہو؟ فرق بس یہ ہے کہ تمہارے پاس چار ٹکے ہیں۔ جنہوں نے تمہیں اہل دین کا طنز کرنے پر اکسایا ہے۔ اور لوگ تو تمہیں واہ واہ کرتے ہوں گے۔ لیکن اپنا یاد رکھو کہ میں تمہاری ان حرکتوں سے نفرت کرتا ہوں اور نفرت بھی انتہاء کی۔ کہ تم نے سرمائے کو مدرسے پر فوقیت دی ہے۔

ابو الوفا محمد حماد اثری