’’تلاوتِ قرآن اور اس میں قراء کی بدعات‘‘

تلاوت قرآن اہم ترین عبادات میں سے ہے اور دیگر عبادات کی طرح یہ عبادت بھی اسی طریقے کے مطابق کی جائے گی جس طریقے پر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیا کرتے تھے، اور جس طرح دیگر عبادات میں من مانی اور جدید طریقہ اختیار کرنا بدعت ہے اسی طرح تلاوتِ قرآن میں سنتِ نبوی ﷺ کی بجائے خود ساختہ اسالیب اختیار کرنا ’’بدعت‘‘ اور ’’احداث فی الدین‘‘ ہے۔
⇚ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

«إنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَأْمُرُكُمْ أنْ تَقْرَءُوا كَما عُلِّمْتُمْ».

’’رسول اللہ ﷺ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ قرآن مجید کی تلاوت اسی طرح کریں جیسے آپ کو سکھائی گئی ہے۔‘‘

(1)⇚ عروہ بن زبیر تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’إِنَّمَا قِرَاءَة الْقُرْآن سُنَّةٌ مِنَ السُّنَنِ فَاقْرَءُوهُ كَمَا عُلِّمْتُمُوْهُ‘‘.

’’قرآن مجید کی تلاوت بھی سنتوں میں سے ایک سنت ہے لہذا جیسے آپ کو سکھایا گیا ہے اسی کے مطابق تلاوت کریں۔‘‘

(2) نیز چونکہ تلاوتِ قرآن عملی طور پر نسل در نسل اساتذہ سے شاگردوں تک منتقل ہوتے ہوئے پہنچی ہے اسی لیے ابتدائی ناظرہ سیکھنے کے لیے بھی لازمی طور پر کسی استاد کی ضرورت پڑتی ہے جو لفظ بلفظ پڑھا کر درست ادائیگی کی راہ نمائی کرے۔
⇚ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’اَلْقِرَاءَة سُنَّةٌ.‘‘

’’تلاوتِ قرآن (مسلمانوں کی عملی) سنت ہے ۔‘‘ (3)
⇚ محمد بن المنکدر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

اَلْقِرَاءَة سُنَّةٌ يَأْخُذهَا الآخر عَن الأول.

’’قراءتِ قرآن سنت ہے جسے اگلی نسل پچھلی نسل سے سیکھتی ہے۔‘‘ (4)
مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ جیسے دیگر عبادات میں بدعات سرایت کر چکی ہیں اسی طرح تلاوتِ قرآن میں بھی بہت سی بدعات آ چکی ہیں، شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر ایک مستقل رسالہ “بدع القراء” یعنی “قاریوں کی بدعات” لکھا ہے، ذیل میں اس سے چند اقتباسات مفہوما مع اضافہ پیشِ خدمت ہیں :
1۔ دورانِ تلاوت ایک یا دونوں ہاتھوں کو کانوں پر رکھ لینا جیسا کہ بعض قراء کرتے ہیں یہ بدعت ہے۔ (ص:٢٦)
2۔ سامعین کا قرآن مجید سن کر اللہ اللہ یا اس جیسے اذکار کی صدائیں بلند کرنا بھی بدعت ہے۔ (بدع القراء، ٢٢)
3۔ مشہور قاریوں کی نقل کرنا، بالخصوص نماز میں خشوع وخضوع سے تلاوت کرنے کی بجائے، نقل اتارنے پر زور رکھنا یا نمازِ تراویح میں ایک قاری کا مختلف قاریوں کی آوازیں نکالنا اور پھر لوگوں کا اس مسجد میں سفر کر کے جانا، کسی مسجد میں صرف اس لیے رش لگا لینا کہ وہاں کے قاری صاحب فلاں کی نقل اتارتے ہیں یہ بھی بدعات میں سے ہے۔ یاد رہے کہ طبعی و قدرتی طور پر اگر کسی قاری صاحب سے آواز ملتی ہو تو حرج نہیں لیکن جان بوجھ کر کوشش کر کے اپنی آواز کو مشہور قراء کی آوازوں پر سیٹ کر کے پڑھنا اور مشقت سے تعلیم و تعلم کرنا جس سے تلاوتِ قرآن کا مقصد ہی فوت ہو جائے تو یہ مذموم ہے ۔ (ص: ٥٤)
3۔ خطبہ یا درس دیتے ہوئے بطورِ استدلال قرآنی آیت پر لہجہ بدل کر تلاوت کے انداز میں پڑھنا ۔ (ص: ٦٠)
4۔ نماز میں ایک سے زائد قراءات کو جمع کر کے پڑھنا یا تلاوت کرتے وقت قراءتیں جمع کرنا بھی مسنون نہیں، یہ صرف درس و تدریس میں جائز ہے، عام تلاوت میں ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ یا صحابہء کرام رضی اللہ عنہم سے بالکل ثابت نہیں۔ (ص : ١٥، ١٨)
5۔ تلاوت کے دوران تہلیل یعنی “لا الہ الا اللہ” اور اللہ اکبر کو قرآن کے انداز میں پڑھنا بھی بدعت ہے۔ (ص: ٢٠)
6۔ قرآنی آیات کو باری کے اعتبار سے پڑھنا، یعنی ایک قاری صاحب ایک آیت پڑھیں، دوسرے اس سے اگلی، تیسرے اس سے اگلی اور اس طرح سورت ختم کریں یہ بھی بدعت ہے۔ (ص : ١٦)
7۔ تلاوات کے بعد ہمیشہ صدق اللہ العظيم پڑھنا، کبھی کبھار پڑھا جا سکتا ہے لیکن اسے ہمیشگی کی عادت بنا لینا درست نہیں۔ (ص: ٢٤)
8۔ تلاوت کو پرسکون طریقے سے احتراما بیٹھ کر سننے کی بجائے، قاری صاحب کو داد دینے کے لیے ہلہ گلہ کرنا، بآواز بلند جملے کسنا اور کھڑے ہو کر جھومنا، یہ بھی مذموم و قبیح افعال میں سے ہے ۔
9۔ لوگوں کی داد بٹورنے کے لیے لمبے لمبے سانس ڈال کر تلاوت میں اپنی رگیں پھلا لینا، چہرے کے غیر فطری اسٹائل بنانا، یہ بھی بدعی طریقہ ہے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہرگز بھی اس انداز سے تلاوت نہیں کیا کرتے تھے ۔
دکتور عبد العزيز بن عبد الفتاح القارئ لکھتے ہیں :
’’بہت سے میڈیا پر آنے والے قاری صاحبان ایسے ہیں کہ ان میں سے بعض تو بہت ہی تکلف و مصنوعی بناوٹ سے یوں پڑھتے ہیں کہ رگیں پھول جاتی ہیں، آنکھیں باہر نکل آتی ہیں اور گلے کی نالیاں ظاہر ہو جاتی ہیں، یہ صرف اپنی شہوت پورا کرنے، شہرت حاصل کرنے اور مال کمانے کے لیے ایسا کرتے ہیں، پھر ان کی تلاوتوں کو پسند کرنے والے لوگ بھی صرف آوازوں کے رسیا ہوتے ہیں، ان کی چیخ دھار وہ شور وغل کی تعریفیں کرتے ہیں جبکہ قرآن کی ایک آیت بھی سمجھ نہیں پاتے ۔‘‘ (5)
10۔ موسیقی کے مقامات سیکھنا اور بھرپور تکلف کر کے ان مقامات پر قرآنی آیات کی تلاوت کرنا بھی سخت مذموم حرکات میں سے ہے، سلف صالحین کے ہاں اس کا کوئی وجود نہیں ملتا بلکہ خود کبار قراء اس سے سختی کے ساتھ منع کرتے ہیں، کبار قراء میں سے جو ان الحان کی اجازت دیتے ہیں ان کے ہاں بھی اس کی کڑی شرائط ہیں۔ (6)
__________________________
1۔ (مسند احمد، ط؛ الرسالہ : ٢/ ٢٠٠، فضائل القرآن لابی عبید، : ٣٦١، مسند البزار : ٤٥٩، وسندہ جید وصححه الحاکم وغیرہ)
2۔ (فضائل القرآن، ص : ٣٦١، السبعة لابن مجاهد ، ص : ٥٢ وسندہ حسن)
3۔ (سنن سعید بن منصور : ٦٧ ، فضائل القرآن لابی عبید، ص : ٣٦١ وسندہ حسن وصححه الحاکم)
4۔ (السبعة فی القراءات لابن المجاهد، ص : ٥٠، ٥١ وسندہ صحیح)
5۔ (سنن القراء و مناهج المجودين، ص : ١٠١)
6۔ (دیکھیے: بدع القراء ومناهج المجودين : ٩٧ – ١٠٣، تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب، ص : ٨٩ – ٩٥)

(حافظ محمد طاھر)

یہ بھی پڑھیں: پھر آئی ایم ایف کے چرنوں میں