والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی ایک صورت 

والدین کی وفات کے بعد ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اگر کسی نیک کام کا آغاز کیا لیکن وفات کی وجہ سے وہ تکمیل کی خواہش ساتھ لیے بار گاہِ الہی میں جا پہنچے تو ان کی وفات کے بعد اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جائے، اگر کوئی نیک کام جاری کر گئے تھے تو اسے ختم کرنے کی بجائے حتی الوسع جاری رکھنے کی کوشش کی جائے۔
علماء میں اس عمل کا ایک خاص سلسلہ پایا جاتا ہے، کتنی ہی ایسی کتب ہیں جن کی تالیف کے لیے والد نے قلم اٹھایا لیکن تکمیلِ تالیف تک زندگی نے وفا نہ کی تو ان کے بیٹے نے اسے مکمل کیا، مثلا:
(1) تقی الدین سبکی علیہ الرحمہ (المتوفی : 756ھ) نے ”الابھاج شرح منہاج الوصول إلی علم الأصول“ کو لکھنا شروع کیا، مکمل نہ کر سکے، بعد میں ان کے بیٹے تاج الدین سبکی علیہ الرحمہ (771ھ) نے تکمیل کی ۔ یہ کتاب سات جلدوں میں چھپ چکی ہے ۔
(2) ابو الفضل زین الدین عراقی رحمہ اللہ (806ھ) نے شرح الحدیث میں ”طرح التثریب فی شرح التقریب“ کی تالیف شروع کی، دورانِ تالیف وفات پا گئے تو ان کے بیٹے ابو زرعہ ولی الدین عراقی رحمہ اللہ (826ھ) نے اسے مکمل کیا ۔ یہ آٹھ جلدوں میں مطبوع ہے۔ اس کتاب کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ اس کی اصل ”تقريب الأسانيد وترتيب المسانيد“ جو کہ احادیث کا مجموعہ تھا اسے ابو الفضل عراقی رحمہ اللہ نے بطورِ خاص اپنے بیٹے کے لیے تالیف کیا تھا تاکہ وہ اسے حفظ کر سکیں، اور پھر بیٹے کی فرمائش پر ہی اس کی شرح لکھنا شروع کی تھی ۔
(3) علامہ ابن سید الناس رحمہ اللہ نے سنن الترمذی کی شرح ”عارضۃ الاحوذی شرح الترمذی“ کا آغاز کیا تھا، مکمل نہ ہو سکی تو ان کے بیٹے نے اس کی تکملہ لکھا ۔ البتہ ابن سید الناس کی شرح اب نامکمل تو میسر ہے لیکن ان کے بیٹے کا تکمیل شدہ حصہ مطبوع نہیں۔ نیز حافظ عراقی رحمہ اللہ نے بھی اس شرح کو مکمل کیا تھا اور وہ بھی شاید مفقود ہے ۔
(4) علامہ ابو العباس احمد بن مسعود القونوی رحمہ اللہ نے اپنی تالیف “شرح الجامع الكبير” کا آغاز کیا، مکمل نہ کر سکے تو بعد میں ان کے بیٹے جمال الدین ابو المحاسن محمود بن أحمد القونوی (771ھ) نے اس کی تکمیل کی ۔
(5) اس کی ایک مثال “المسودة فى أصول الفقه” بھی ہے کہ جس کی تصنیف کا آغاز مجد الدین عبد السلام ابن تیمیہ (652ھ) نے کیا، اس کے بعد ان کے بیٹے عبد الحليم ابن تیمیہ (682ھ) نے اس پر اضافہ کیا اور پھر اس کی تکمیل ان کے بیٹے احمد بن عبد الحلیم شیخ الاسلام ابن تیمیہ (728ھ) نے کی ۔ رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ ۔
اس سے جہاں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ والدین کے جاری کردہ مشن کی تکمیل ان سے احسان کی ایک صورت ہے، وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ والدین کو اپنی زندگی میں ایسے کام کرنے چاہئیں کہ ان کی تکمیل اولاد کے لیے باعث اعزاز اور والدین کے لیے سامانِ نجات بنے۔
وفقنا الله إلى مرضاته۔

حافظ محمد طاھر

یہ بھی پڑھیں: قبور صالحین کی حفاظت