یارو! اس کی قبر میں دو روٹی بھی رکھ دینا

بھوک کے آزار بھی انسان کو کس قدر لاچار، بیمار اور نحیف و نزار کر ڈالتے ہیں کہ وہ کوڑے کے ڈھیر پر پڑی اشیا کو بھی کھانے میں ذرا تامل نہیں کرتا، وہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کچرے کے ڈھیر پر پڑی کھانے کی چیزیں بھی اٹھا کر کھا جاتا ہے۔یہ ایک فلسطینی بچے کی ویڈیو ہے، بھوک کے آلام میں لتھڑی مگر انا اور خودی کے احساس سے سرشار اور شاداب، آٹھ دس سال کا یہ معصوم سا بچہ گندگی کے ڈھیر پر پڑا کوئی پھل اٹھا کر اسے کھانے ہی لگتا ہے، اسے فوراً محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے تو یک دم وہ پھل پھینک دیتا ہے۔غلامی کی مہیب اور ہولناک اسیری میں بھی اپنی انا اور تشخص کو قائم رکھنا کتنا مشکل ہوتا ہے، ایسے کسی بھی لمحے میں انسان کی آنکھیں کس قدر اشکوں سے تر ہو جاتی ہوں گی، اس کا اندازہ تو اسی کیفیت سے گزرنے والے شخص ہی کو ہو سکتا ہے، ہم آسودگیوں میں رہنے والے کیا جانیں کہ غلامی کے ساتھ بھوک کی اذیتیں انسانی سوچ اور فکر کس طرح ادھیڑ کر رکھ دیتی ہوں گی؟ ہم اس کیفیت کا اندازہ کبھی لگا ہی نہیں سکتے اس لیے کہ ہم نے کبھی بھوک کی صعوبتیں دیکھی ہی نہیں ہیں۔بچے کا پھل واپس پھینکنے کا لمحہ میرے دل میں کسی نشتر کی مانند گَڑ کر رہ گیا ہے۔نظیر اکبر آبادی نے کہا ہے:-
بے زری، فاقہ کشی، مفلسی، بے سامانی
ہم فقیروں کے بھی ہاں کچھ نہیں اور سب کچھ ہے
اکتوبر سے اب تک غزہ میں جاری اسرائیلی فوج کی دہشت گردی میں جہاں 29 ہزار 600 سے زائد فلسطینی شہید اور 70 ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں وہیں کئی ہزار بے گھر اور بے سروسامان فلسطینی قحط زدہ حالات میں اپنی زندگی گزارنے پر بھی مجبور ہیں۔غزہ میں درد سے لدی جتنی المناک کہانیاں جنم لے چکی ہیں ان سے ہمارے اقتدار کے بھوکے حکمران چشم پوشی برتے ہوئے ہیں۔اقتدار کی چھینا جھپٹی میں مبتلا ان سیاسی بزرجمہروں کو کیا خبر کہ غزہ لٹ چکا ہے۔ان اقتدار کے حریص لوگوں کو کیا پتا کہ غزہ کے شمالی علاقے میں جبالیہ کے پناہ گزین کیمپ میں بھوک سے تڑپتے بچوں کا باپ بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے اپنے گھوڑے ذبح کرنے پر مجبور ہوگیا۔وہ لوگ بھوک سے کلبلاتے اپنے بچوں کو دیکھ کر کس طرح آنسوؤں کو روک پاتے ہوں گے؟ وہ در و دیوار جہاں بھوک کے سناٹے ہوں، جہاں روٹی کے لیے معصوم بچوں کی سسکیاں کلیجے چیر دیتی ہوں، وہاں کی مصائب اور مسائل کا ادراک کرنا محال ہے۔اپنے بچوں کو گھوڑے کا گوشت کھلانے والے جبریل نامی شخص نے غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ” میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ بھوک سے نڈھال بچوں کو خوراک دے سکوں اس لیے مَیں نے اپنے گھوڑوں کو ذبح کر دیا تا کہ ہم کچھ اور نہ ملنے کے باعث گھوڑوں کا گوشت کھا کر ہی زندہ رہ سکیں “
ابو جبریل کہتا ہے کہ ” ہم بڑی عمر کے لوگ تو بھوک اور پیاس برداشت کر لیتے ہیں کیوں کہ ہمیں اپنی زندگی کے اس مشکل مرحلے کا اندازہ ہے لیکن 4 اور 5 سال کے بچوں کو بھوکا پیاسا رکھنا بہت مشکل ہے، انھیں بھوکا سلانا اور بیدار ہوتے ہی بھوک سے بلکتا دیکھ کر ہماری برداشت جواب دے جاتی ہے “ اخلاق ساغری نے کیا خوب اشعار کہے ہیں:-
بھوک میں کوئی کیا بتلائے کیسا لگتا ہے
سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی تحفہ لگتا ہے
یارو اس کی قبر میں دو روٹی بھی رکھ دینا
مرنے والا جانے کب کا بھوکا لگتا ہے؟
دنیا میں آج جتنی کم ظرفی کا مظاہرہ ہنود و یہود کر رہے ہیں اس کی مثال تلاشنا ہی مشکل ہے اور دنیا میں آج جس قدر بے حسی کا اظہار مسلم حکمران کیے جا رہے، اس کی مثال کھوجنا بھی بہت کٹھن اور دشوار ہے۔
شمالی غزہ میں ایک دو ماہ کا فلسطینی لڑکا بھوک سے مر گیا۔ ننّھے پھول محمود الفتوح کی موت جمعے کے دن غزہ شہر کے الشفا ہسپتال میں ہوئی۔بچے کی موت کی ویڈیو انسانیت کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے، معصوم بچے کو ہسپتال کے بستر پر ہانپتے کانپتے دَم توڑتے ہوئے دِکھایا گیا ہے۔طبّی عملے کا کہنا ہے کہ محمود کی موت شدید غذائی قلت سے ہوئی ہے۔
یونیسیف نے ایک بیان میں تاکید کی ہے کہ غزہ میں پچھلے چار ماہ سے جاری جنگ کے نتیجے میں دس لاکھ فلسطینی بچے غذائی قلت سے دوچار ہیں اور انھیں صحت کے بحران کا سامنا ہے۔اقوامِ متحدہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ غزہ میں 95 فی صد سے زائد فلسطینی خاندانوں نے بالغوں کے کھانے میں کمی کی تا کہ بچوں کو زیادہ خوراک مل سکے۔
بھوکے فلسطینی بچوں کا درد اور کرب عہدِ جدید کا ایک المیہ ہے، جس سے عالمی برادری سمیت مسلم حکمرانوں نے مجرمانہ چشمِ تغافل برت رکھی ہے۔غزہ میں قزاق اور سفاک بھوک کی چوکھٹ پر دَم توڑتے نونہالوں کو دیکھ کر انسانی حقوق کے عَلم برداروں کی زبانیں گنگ کیوں ہو گئی ہیں؟ ان کے اپنے مرتب کردہ انسانیت کے اسلوب اس قدر محجوب اور معتوب تو نہ تھے۔محمد ایوب بسمل کے اشعار ہیں:-
کفر ہے برسرِ پیکار یہاں برسوں سے
گرم ہے ظلم کا بازار یہاں برسوں سے
امن ہے نقش بہ دیوار یہاں برسوں سے
حق عدالت میں سرِ دار یہاں برسوں سے

انگارے۔۔۔حیات عبداللہ

یہ بھی پڑھیں: تعارفِ فُضلاء جامعہ سلفیه فیصل آباد 2024ء