’’زکوٰۃ کو اُس کے مصرف تک منتقل کرنے کے اخراجات‘‘

زکاۃ ادا کرنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے اس کے مصرف تک خود منتقل کرے، اس جو بھی اَخرجات آتے ہیں وہ زکاۃ ادا کرنے والا الگ مال سے ادا کرے گا، اسے زکاۃ کے ہی پیسوں سے کاٹ لینا درست نہیں۔ چنانچہ اگر کسی مسکین یا ادارے تک زکاۃ پہنچانے کے لیے سفر کرنا پڑے تو وہ سفری اخراجات زکوٰۃ کے ہی پیسوں سے نہیں کاٹے جائیں گے بلکہ زکاۃ ادا کرنے والا وہ اخراجات الگ اپنی جیب سے ادا کرے گا۔ اسی طرح بسا اوقات اکاؤنٹس میں زکاۃ کے پیسے منتقل کرتے وقت ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، وہ ٹیکس بھی زکوٰۃ سے منہا نہیں کیا جا سکتا، وہ بھی صاحبِ مال اپنی طرف سے کٹوائے گا ۔
عموماً فلاحی ادارے اس غلطی کا شکار رہتے ہیں کہ وہ کسی علاقے میں غرباء اور مساکین تک زکاۃ پہنچانے میں بطورِ وکیل لوگوں سے پیسے لے کر مصرف تک منتقل کرنے کے تمام اخراجات اسی مالِ زکاۃ سے ادا کرتے ہیں جو کہ درست نہیں ۔
چنانچہ حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٧٦هـ) فرماتے ہیں :

حيث جاز النقل أو وجب فمؤنته على رب المال.

’’جب زکاۃ منتقل کرنا جائز ہو یا واجب تو اس کے اَخرجات صاحبِ مال کے ذمے ہیں۔‘‘ (المجموع، ط المنيرية : ٦/ ٢٢٣)
علامہ مرداوی رحمہ اللہ (٨٨٥هـ) فرماتے ہیں :

أجرة نقل الزكاة، على رب المال.

’’زکاۃ کو منتقل کرنے کی اُجرت صاحبِ مال کے ذمے ہے۔‘‘ (الإنصاف : ٧/ ١٧٤)
شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ (١٤٢١هـ) سے سوال کیا گیا کہ کسی شخص کی ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ وہ زکوٰۃ کے پیسے ذاتی طور پر بیرون ملک پہنچائے تو کیا وہ انہی میں سے سفری اخراجات کاٹ سکتا ہے کیونکہ وہ خود یہ خرچہ نہیں اٹھا سکتا؟
تو انہوں نے جواب دیا :

لا يحل له أن يأخذ من الزكاة شيئًا لهذا السفر، لأن الواجب على من عليه الزكاة أن يوصلها إلى الفقير من ماله هو، فإذا كان يريد أن يذهب إلى مكان يحتاج إلى مؤنة سفر، فإنه يأخذ من صاحب المال الذي أعطاه مؤنة السفر، وأما حق الفقراء فيجب أن يُؤدى إليهم خالصًا.

’’نہیں، اِس سفر کے لیے زکاۃ کے پیسوں میں سے اس کے لیے کچھ بھی لینا جائز نہیں، کیوں کہ جس کے ذمے زکاۃ ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے مال سے اسے فقیر تک خود پہنچائے، اگر وہ کسی ایسی جگہ مالِ زکاۃ لے جانا چاہتا ہے جہاں سفری اَخرجات ہوں گے تو وہ اسی صاحبِ مال سے خرچ لے جس نے اسے زکاۃ دی ہے، باقی رہا فقراء کا حق تو وہ انہیں خالص پورا کا پورا پہنچانا واجب ہے۔‘‘ (مجموع فتاوى و رسائل العثيمين : ١٨/ ٣٦٩)
حاصلِ کلام یہ ہے کہ مالِ زکاۃ کو فقراء و مساکین یا دیگر مصارف تک پہنچانے پر جو اخراجات ہوں وہ الگ سے ادا کیے جائیں گے، انہیں زکاۃ سے ہی کاٹ لینا درست نہیں ۔ واللہ أعلم.

حافظ محمد طاھر

یہ بھی پڑھیں: ’’تلاوتِ قرآن اور اس میں قراء کی بدعات‘‘