سوال
بالوں کی پیوند کاری، یعنی ایک انسان کے اپنے ہی بال ایک جگہ سے اتار کر دوسری جگہ لگا دینا،جو کہ بڑے بھی ہوتے ہیں اور جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔کیا یہ لگوانا شرعاً درست ہے؟
جواب
الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
بالوں کی پیوند کاری دو طرح کی ہوتی ہے:
- نمبر1 : حقیقی بالوں کے ساتھ مصنوعی بال لگوانا۔لگانے والی عورت کو واصلہ کہتے ہیں اور لگوانے والی عورت کو مستوصلہ کہتے ہیں۔یہ دونوں کام ہی باعث لعنت ، یعنی ناجائز اور حرام ہیں۔ (صحیح مسلم:2122 تا 27) اسی طرح مصنوعی بال جسے ہم اپنی زبان میں وگ کہتے ہیں وہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عورت نے مسئلہ پوچھا تھا۔کہ میری بیٹی بیمار ہوئی ہے اور اس کے بال جھڑ گئے ہیں۔اس کے خاوند کا مطالبہ ہے کہ مصنوعی بال لگوا دیے جائیں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ”[بخاری:4887]
کہ اللہ نے بال لگانے والی پر لعنت کی ہے‘۔
- نمبر2: جدیدسرجری کے ذریعے انسان کے اپنے ہی جسم کے بال لے کر، نرسری کے طور پرسر میں لگا دیے جاتے ہیں۔ تو کچھ دنوں کے بعدوہ بال جھڑ جاتے ہیں، اور پھر نئےبال اگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ حدیث میں اندھے، کوڑھی، اور گنجےکا مشہور واقعہ آتا ہے۔ جب گنجےسے فرشتے نے پوچھا تھا ، کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ تو اس نے کہا: میں سر پر گھنے بال چاہتا ہوں۔تو فرشتے نے سر پر ہاتھ پھیرا ،اور اللہ کے حکم سے نئے بال اگ آئے۔( بخاری: 3464مسلم:2964) اس واقعے سے استشہاد لیا جا سکتا ہے، کہ حقیقی نئے بال اگانا جائز ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن عبد الحنان حفظہ اللہ