سوال

ایک میت کے ورثا میں اس کی بیوی، ربیبہ، متبنی بیٹی اور بھتیجا زندہ ہے، وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی؟ أفیدونا مأجورين.

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • کوئی بھی انسان کسی دوسرے کا شرعی وارث تین میں سے ایک وجہ سے بنتا ہے، گویا اسبابِ وراثت تین ہیں:
  • رحم: یعنی خونی رشتہ دار آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں۔
  • نکاح: یعنی میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں۔
  • ولاء: یعنی اگر کوئی کسی غلام کو آزاد کرے یا کروائے تو وہ اس کا وارث بن سکتا ہے۔

اس کے علاوہ کوئی کسی کا شرعی وارث نہیں بن سکتا، ہاں البتہ اگر میت اپنی زندگی میں کسی کو وصیت کرجائے، تو  شرعی حدود وقیود کا خیال رکھتے ہوئے، اس شریعت کانفاذ ہوگا۔

  • سوال میں ذکر کردہ لوگوں میں ربیبہ(بیوی کی بیٹی جو پہلے خاوند سے  ہو) اور متبنیٰ(منہ بولا بیٹا یا بیٹی) کا میت کے ساتھ  مذکورہ تینوں تعلقات میں سے کوئی تعلق نہیں، لہذا  انہیں وراثت میں سے کچھ نہیں ملے گا۔
  • البتہ بیوی اور بھتیجا کو وراثت میں حصہ ملے گا،  جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:

کیونکہ میت کی اولاد نہیں لہذا بیوی کو چوتھا حصہ ملے گا؛اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

{وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُم وَلَدٌ} [النساء: 12]

’’اگر تمہاری اولاد نہ ہو، تو بیویوں کے لیے چوتھا حصہ ہے۔‘‘

اور بقیہ سب مال بطورِ عصبہ بھتیجے کے لیے ہوگا؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

«أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ»[صحیح البخاری: 6737]

’’متعین اور فرض حصے دینے کے بعد، بقیہ سارا قریبی مذکر رشتہ دار کو دے دیں۔‘‘

اور یہاں مذکر رشتہ دار صرف بھتیجا ہی ہے۔

کل مال کے چار حصے کرکے ایک حصہ بیوی کو دے دیا جائے، اور بقیہ تین حصے بھتیجے کو۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ