سوال

مفتی صاحب میری اپنی بیوی ( عفیفہ صالح) سے تلخ کلامی ہوئی ، میں نے اسے  کہا کہ اگر آپ رات 12 بجے سے پہلے نا آئی تو میری طرف سے طلاق طلاق طلاق ہے، اور  تو مجھ پر حرام ہے وہ 12 بجے کے بعد بھی نہیں آئی۔ اب میں شرمندہ ہوں اور رجوع کرنا چاہتا ہوں، جب طلاق دی تھی تو وہ حاملہ تھی، اب وضع حمل بھی ہوگیا ہے۔ برائے مہربانی  شریعت کی رو سے ہماری رہنمائی کریں۔

(عادل فرقان ولد عبداللہ خان، گلی اختر اعوان ،حضرت بلال کالونی ،تھویا فاضل ڈیرہ)

جواب

الحمدلله والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد!

  • مسئلہ طلاق بڑی نزاکت کا حامل ہے لیکن ہم لوگ اس سلسلہ میں بہت لاپرواہ  واقع  ہوتے ہیں ، معمولی گھریلو ناچاکی کی بنیاد پر یکبار سہ طلاق دے دینا  ہماری عادت بن چکی ہےحالانکہ طلاق دینے کا یہ طریقہ رسول اللہ ﷺ کو انتہائی ناپسند تھا، آپﷺ نے اس انداز سے طلاق دینے کو اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل  اور مذا ق قرار دیا ہے (سنن نسائی،الطلاق:3430)

البتہ کتاب وسنت کی رو سے ایک مجلس میں دی ہوئی بیک وقت  تین طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقع ہو ۔دلائل حسب ذیل ہیں:

1۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد نبوت ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ   کے زمانہ خلافت اور سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں  تین طلاقیں ، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں ،لیکن کثرتِ طلاق کی وجہ سے سیدنا عمررضی اللہ   عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی ،اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کر دیا (صحیح مسلم، الطلاق،1472) تاہم  سیدنا عمررضی اللہ  کا یہ اقدام تعزیری وانتظامی نوعیت کا تھا  ،  جیسا کہ اس بات کو کئی ایک حنفی اکابرین  نے بھی  تسلیم کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: جامع الرموز کتاب الطلاق اور حاشیہ طحطاوی  على الدر المختار)

2۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں  تین طلاقیں دے دیں ۔لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے  ان سے پوچھا کہ تم نے  اسے طلاق کس طرح دی تھی ؟عرض کیا:تین مرتبہ۔ آپﷺ نے دوبارہ پوچھا:  ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ؟عرض کیا! ہاں۔  آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔،،راوی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ   عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے رجو ع کر کے  اپنا گھر آباد کر لیا تھا۔( مسند احمد:ص 123/4 ، ت: احمد شاکر  )

اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

هذا الحدیث نص فی المسئلة لایقبل التاؤیل. (فتح الباری : 362/ 9)

یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ  کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل  کی حیثیت رکھتی ہے جس کی  کوئی تاؤیل نہیں کی جاسکتی ۔

  • بعض علمائے احناف نے بھی دلائل کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتوی دیا ہے۔ ان علما میں مولانا پیر کرم شاہ ،مولانا عبدالحلیم قاسمی، مولانا حسین علی واں بھچراں ،مولانا احمد الرحمٰن اسلام آباد اور پروفیسر محمد اکرم ورک سرِفہرست ہیں ۔ ان کے فتاویٰ کی تفصیل( ایک مجلس میں تین طلاق ) نامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال ان حقائق کی روشنی میں ایک باغیرت مسلمان کے لیے گنجائش ہے کہ اگر اس نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں تو دورانِ عدت بلاتجدیدِ نکاح رجوع کر سکتا ہے ،اور اگر عدت گزر چکی ہے تو بھی تجدید ِنکاح سے اپنا گھر آباد کرسکتا ہے ۔قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے اس کے علاوہ ہمارے ہاں رائج الوقت عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہی فتوی دیا جاتاہے۔
  • صورتِ مسؤلہ میں ہمارے نزدیک ایک طلاق واقع ہوگئی تھی، اور چونکہ بیوی حاملہ تھی، تو آپ وضع حمل سے پہلے پہلے بلانکاح رجوع کرسکتے تھے،  اب جبکہ وضع حمل ہوچکا ہے، تو اب رجوع کے لیے نکاح ضروری ہے۔ چونکہ عدت ختم ہونے سے نکاح ختم ہوجاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ(سورۃ البقرۃ:232)

” جب تم نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی،پھر وہ اپنی عدت پوری کر چکیں،تو انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو، جبکہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضامند ہوجائیں۔“

لہٰذا  معلوم ہوا کہ عدت ختم ہونے کے بعد بذریعہ نکاحِ جدید دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوسکتے ہیں۔

بشرطیکہ بیوی  نکاحِ جدید کےلیے راضی  ہو۔ كيونكہ جیسے  ولی کی اجازت  شرط ہے اسی طرح بیوی کی رضامندی بھی شرط ہے ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرماتے ہیں :

«الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا»(صحيح مسلم :1421)

”بیوہ اپنے ولی کی بہ نسبت ،اپنے بارے میں زیادہ حق دار ہے  اور کنواری سے بھی اس کے اپنے بارے میں مشورہ کیا جائے گا ،اس كی خاموشی ہی اس کی اجازت شمار ہوگی ۔“

اس کے علاوہ حق مہر بھی نیا ہوگا، کیونکہ پہلا حق مہر  نکاح کے ختم ہونے سے ختم ہوجاتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ  نکاح  بند کمرے میں نہ  ہو، بلکہ گواہوں کی موجودگی   لازمی ہے۔

  • آخر میں ہم آپ کو یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ گھر میں  اختلافات آئندہ بھی ہوسکتے ہیں، لیکن خلاف مزاج بات ہونے پر طلاق دینے پر اتر آنا یہ مناسب رویہ نہیں، جو شرمندگی اور احساس طلاق دینے کے بعد ہوتا ہے، اس صورت حال کوپہلے ہی سوچنا چاہیے۔ کوشش کریں کہ غصے، غمی یا خوشی کی حالت میں  بے قابو ہونے کی وجوہات کو تلاش کریں۔ نماز، روزہ، ذکر واذکار اور تلاوتِ قرآن کریم کی پابندی کیا کریں، وقتا فوقتا صدقہ وخیرات، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ ان نیکیوں کی برکت سے امید ہے اللہ تعالی آپ کے تمام مسائل اور پریشانیوں کو حل فرمادیں گے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ سب اہل خانہ کو سعادتمندی اور نیکی وتقوی سے بھرپور لمبی زندگی عطا فرمائے، اور آپ کو نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے۔ آمین۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور حافظ محمد اسحاق زاہد حفظہ اللہ