سوال
ایک آدمی صاحبِ نصاب ہے۔ اس کے پاس سونا، روپیہ،اور جانور ہیں۔ اس کی زکوۃ ادا کرنے کا اس نے ارادہ کیا ہوا ہے۔ لیکن جیسے ہی سال پورا ہوا ہے، چند دن گزرے ہیں ،اوراس کا مال چوری ہوجاتا ہے۔ گودام میں آگ لگ جاتی ہے، یا اس کے جانورمر جاتے ہیں۔ اب اس کے پاس تو کچھ رہا نہیں۔ کیا یہ آدمی زکوۃ دے گا یا نہیں ؟ اگر یہ زکوۃ دے گا، توکیسے دے گا کیونکہ اب یہ خود محتاج ہے۔ تو اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
1:مثال کے طور پر ایک لاکھ پر اڑھائی ہزار زکوۃ بنتی ہے۔ اس نے زکوۃ نکال کر الگ تو کرلی تھی مگر آدمی تلاش کر رہا تھا کہ زکوۃ کا مستحق کوئی ملے اور یہ اس کو دے دے۔تو اس صورت میں از سر نو زکوۃ ادا نہیں کرنی پڑے گی۔ کیونکہ زکوۃ تو اس نے نکال دی تھی۔ لیکن اب پہنچانے کا بندوبست کررہا تھا۔
2:دوسری صورت یہ ہے کہ زکوة فرض ہو چکی تھی۔اور وہ ٹال مٹول کرتا رہا۔نہ ہی اس نے زکوۃالگ کی ہے نہ اس نے ادا کرنےکی کوشش کی ۔اسی دوران آگ لگ گئی۔ یا ڈاکو لے گئے ۔یا وہ مال کسی بھی وجہ سے ضائع ہو گیا ۔ تو اب زکوۃ اس کے ذمہ ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ اب وہ زکوٰۃ کہاں سے ادا کرے گا جبکہ وہ خود محتاج ہو گیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جب وہ اپنے اہل و عیال کے لیے کھانے پینے اور باقی تمام ضروریاتِ زندگی کے لیے بھی تو بندوبست کرتا ہے۔جہاں سے ان چیزوں کا بندوبست کرتا ہے،تو زکوۃبھی وہیں سے ادا کرے گا۔ اس صورت میں اس کو زکوۃ معاف نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ اپنی بھی تو یہ ضروریات پوری کرتا ہے۔ اور زکوۃ تو اللہ کا حق ہے۔ اور اپنے حقوق ادا کرنے سے زیادہ اللہ کا حق مقدم ہوتا ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن عبد الحنان حفظہ اللہ