سوال
میرے ہمسائے عیسائی ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر ، یا ان کا جوٹھا کھانا کھایا جا سکتا ہے؟ اسی طرح اگر کوئی ہندو ہے تو ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا یا ان کا بچا ہوا کھانا جائز ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اگر غیر مسلم کے ہاتھ یا منہ میں کوئی نجاست وناپاکی نہ ہو، جیسے شراب وغیرہ تو اس کا بچا ہوا یعنی جوٹھا کھانا یا پینا جائز ہے ،بشرطیکہ وہ کھانے یا پینے کی چیز فی نفسہ حلال وجائز ہو، حرام وناپاک نہ ہو۔ کیوں کہ غیر مسلم فی نفسہ ناپاک نہیں ہوتا، اگر اس کے جسم وغیرہ پر کوئی ناپاکی ہو تب ہی اس پر ناپاکی کا حکم لگتا ہے ورنہ نہیں۔
اور قرآنِ کریم میں جو غیر مسلموں کو ناپاک کہا گیا ہے:
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا”. [التوبہ:28]
’اے ایمان والو! بے شک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں وه اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں۔
اس میں معنوی نجاست یعنی کفر و شرک کی گندگی مراد ہے، ظاہری اور حسی ناپاکی مراد نہیں ہے۔ لہذا کسی غیر مسلم کے ساتھ بیٹھنے سے مسلمان ناپاک نہیں ہوتا، بشرطیکہ ان کے جسم ظاہری اور حسی نجاست سے پاک و صاف ہوں۔
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“الآدميُّ, طاهرٌ, وسؤرُه طاهرٌ, سواء كان مسلمًا أم كافرًا, عند عامَّةِ أهلِ العِلمِ”. [المغني:1/37]
’ آدمی مسلمان ہو یا کافر، اس کا جسم بھی پاک ہے، اور اس کا جوٹھا بھی پاک ہے‘۔
البتہ بلا ضرورت و بغیر مجبوری غیر مسلموں کے ساتھ کھانے پینے، یا ان کی بچی ہوئی ماکولات و مشروبات لینے کی عادت ٹھیک نہیں ہے، اس سے مسلمانوں کو بچنا چاہئے۔ اسی طرح کفار اور اہل کتاب کی مذہبی رسومات میں شریک ہونا، اور وہاں کھانا پینا، یہ بالکل جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اہلِ ایمان کی نشانی ہے کہ وہ اس قسم کی منکرات میں حاضر نہیں ہوتے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ