سوال

ایک آدمی کا شہر سے دور ویران جگہ پر ڈیرہ تھا۔اس ڈیرے کے ساتھ اس نے ایک مسجد بھی بنائی ہوئی تھی۔اب وہ اس ڈیرے کو ختم کرکے شہر کی طرف منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ کیونکہ وہاں کوئی آبادی نہیں،  ویران جگہ ہے۔  کیا ڈیرے کے ساتھ ساتھ وہ مسجد کو  بھی منتقل کر سکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

مسجد کو بلاوجہ دوسری جگہ منتقل  کرنا درست نہیں۔ ہاں البتہ اگر پہلی مسجد بے آباد ہوجائے ،یا اس سے وہ مقاصد پورے نہ ہو رہے ہوں ،جو تعمیرِ مسجد کے پیش ِنظر ہوتے ہیں، تو ایسے حالات میں  مسجد کو دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔اس صورت میں پہلی مسجد کے سامان کو دوسری مسجد میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔اور پہلی زمین کو فروخت کرکے اس کی قیمت کسی دوسری مسجد میں خرچ کرنا بھی جائز ہے، یا ویسے ہی اس جگہ کو کسی اور استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کوفہ کی ایک پرانی مسجد کو دوسری جگہ منتقل کر دیا تھا۔ اور پہلی مسجد کی جگہ کھجور منڈی بنا دی تھی۔کیونکہ پہلے بیت المال محفوظ جگہ پر نہیں تھا ،اس کی حفاظت مقصود تھی، تو اسے دوسری مسجد کے قبلہ کی طرف بنایا تاکہ آنے جانے والے نمازی اس پر نظر رکھیں۔[مجموع الفتاوی لابن تیمیہ:216/31]

مندرجہ بالا  وضاحت کی روشنی میں  مذکورہ مسجد کو منتقل کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے سامان کو دوسری مسجد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔نیز اس کی زمین فروخت کرکے اس کی قیمت بھی دوسری مسجد میں صرف کی جا سکتی ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ