سوال
جناب عالی! قرآن و حدیث کی روشنی میں درج ذیل سوال کے جواب میں مفصل فتوی جاری فرما دیں:
یہ کہ اب سے چالیس سال قبل میں نے اپنے ذاتی استعمال کے لیے ذاتی سرمائے مبلغ 30 ہزار روپے کی قیمت پر ایک قطعہ اراضی برقبہ دو کنال تین مرلے خریدنے کا سودا طے کیا. بعد ازاں زمین ھٰذا کی رجسٹری اپنے نام منتقل کروانے کے لئے موقع پر صورتحال کچھ اس طرح بن گئی، کہ زمین ہذا کا سابقہ مالک بیرون ملک برطانیہ جانے کے لئے تیار تھا، اور کچہری میں رجسٹری کروانے کے لیے تمام رقبے کی یکمشت رجسٹری کرانے میں اشٹام حاصل کرنے کے لئے کچھ دن کا وقت درکار تھا، دوستوں اور عزیز و اقارب و قانونی مشورے کے بعد فوری طور پر میں نے اپنے اور اپنے حقیقی پسر (جس کی عمر سات سال تھی) کے نام مشترکہ رجسٹری کروا لی. اس وقت صرف قانونی مجبوری کی وجہ سے ہی زمین مشترکہ طور پر خریدی گئی ،جبکہ زمین ہذا کی تمام رقم میں نے اپنی ذاتی جیب سے خرچ کی تھی.گویا مشترکہ نام صرف امانت کے طور پر ہی استعمال کیا گیا تھا دراصل اور درحقیقت اس زمین کا میں واحد مالک ہوں۔بعد ازاں میرا مذکورہ پسر حقیقی بڑا ہو کر اپنی شادی کے چند ماہ بعد ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہو کر دنیا سے چل بسا، اس کی وفات کے بعد اس کی ایک بیٹی پیدا ہوئی جو کہ بقید حیات ہے۔ جناب عالی یہ وضاحت فرما دیں کہ کیا اس زمین کا میں شرعی طور پر واحد مالک ہوں یا پھر میری بہو اور پوتی کا دعوی درست ہے کہ وہ بھی اس میں بحیثیت ورثاشامل ہیں؟
العارض:خوشی محمد
جواب
الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
- اگر باپ کا بیان درست ہے کہ اس نے صرف قانونی پیچیدگی کی وجہ سے زمین بیٹے کے نام کروائی تھی، تو پھر شرعی طور پر یہ بیٹا زمین کا مالک نہیں ہے، بلکہ وہ ساری زمین اس کے باپ کی ہی ہے، لہذا بہو اور پوتی کے پاس اس زمین سے وراثت کا دعوی کرنے کا حق نہیں ہے۔
- سائل نے جیسا کہ خود اقرار کیا کہ قانونی طور پر وہ زمین باپ بیٹے کے درمیان مشترکہ تھی، تو باپ کو چاہیے تھا کہ اگر اس نے کسی مجبوری کے تحت یہ کام کیا تھا ،تو اُس وقت اشٹام وغیرہ کرا لیتا کہ یہ زمین میں نے اپنے بیٹے کے نام قانونی پیچیدگی کی وجہ سے کر ائی ہے، وہ اس کا مالک نہیں ہے۔ تاکہ اب عدالت میں وہ اشٹام پیش کرکے مکمل زمین اپنے نام کروا لیتا۔
لیکن اگر اس نے ایسے نہیں کیا ، تو جس طرح شروع میں قانونی پیچیدگی کے سبب زمین بیٹے کے نام کروائی، اب بھی ایک قانونی مشکل سے بچنے کے لیے بیٹے کو مالک مانتے ہوئے، بہو اور پوتی کو حصہ دینا چاہیے ۔کیونکہ اگر وہ اپنے بیٹے کو مشترکہ مالک مان بھی لیتا ہے تو آدھی زمین ہی اس کے بیٹے کے حصے میں جائے گی، دوسری آدھی تو اسی کی ہے۔ اور پھر جو آدھی بیٹے کے نام آئے گی، اس میں بھی آٹھ حصے کیے جائیں گے،تو تین حصے بطور باپ اسی کے ہیں، جبکہ اس کی بہو کو بطور بیوی ایک حصہ ملے گا، اور اس کی پوتی کو بطور بیٹی چار حصے ملیں گے۔
یہ احسان بھی ہے، حسنِ سلوک بھی ہے، صلہ رحمی بھی ہے۔ مال میں برکت کا سبب، دنیا میں نیکی نامی کا ذریعہ، اور آخرت میں باعثِ اجر و ثواب ہے۔ ان شاءاللہ.
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن عبد الحنان حفظہ اللہ