سوال

ایک لڑکا اور لڑکی کا جسمانی تعلق تھا ،جس کے نتیجے میں لڑکی کو حمل ٹھہر گیا۔   بعد میں ان دونوں نے شادی کر لی ۔

اس طرح جو بچہ پیدا ہو گیا ،اس کا  status  کیاہو گا؟    اسلامی لحاظ سے کیا ایسی اولاد کا جائیداد میں حصّہ ہو گا ؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

بد کاری کے نتیجہ میں ہونے والے حمل کے دوران نکاح جائز نہیں ہے۔زانی خود نکاح کرنا چاہے یا کوئی اور، اس کےلئےوضعِ حمل ضروری ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ کریم میں فرمایا ہے:

“وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ”. [سورةالطلاق:4]

اور حاملہ عورتوں کی عدت  وضع حمل ہے۔

اگر دوران حمل کوئی اس سے شادی کر لیتا ہے، جیسا کہ ہمارے ہاں بعض علماء کا موقف ہے۔  تو نتیجے کے طور پر جو بچہ پیدا ہوگا، اس کا نسب اس سے نہیں ملایا جائے گا،  اگرچہ وہ نطفہ اس زانی کا ہی ہے۔ کیونکہ اسلام میں اس بچے کا نسب جاری ہوتا ہے جو نکاح کے بعد بچہ پیدا ہو۔ [الموسوعة الفقهية الكويتية:40/237]یہ نکاح کی نہیں بلکہ زنا کی پیداوار ہے۔ اس لئے یہ بچہ ماں کی طرف منسوب ہوگا۔ اور ماں ہی اس کی وارث بنے گی۔ زانی کا اس کی وراثت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام نے  جس نسب کو جائیداد کا سبب قرار دیا ہے، وہ نسبِ صحیح ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ